او آئی سی اور عالم اِسلام

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
از کنارِ نیل سے لے تابہ خاکِ کاشغر
او آئی سی اور عالم اِسلام
تنظیم اسلامی کارپوریشن (او آئی سی) نے وسطی افریقی جمہوری ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی مسلم کش کارروائیوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ اس خطے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی گروہ واری تشدد کو روکنے کے فوری اقدامات کریں۔ جمہوریہ وسطی افریقی ملک عیسائیوں کے فرقہ پرست ٹولوں کی خون ریز کارروائیوں سے جل رہا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ لاکھوں مسلمان نقل مکانی کررہے ہیں۔ او آئی سی سکریٹری جنرل ایاد امین مدنی نے بروقت اس نازک صورتحال کی جانب عالمی برادری کی توجہ دلائی ہے، مگر بذات خود مسلم تنظیم ہونے کی ذمہ داریوں کو بروئے کار لانے میں وہ قاصر ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ 56 مسلم اقوام کی رکنیت رکھنے والی او آئی سی کے پاس اختیارات، مالیہ اور حوصلہ کا فقدان ہے۔ اس سے قبل برما میں بھی مسلم کش فسادات کو روکنے کیلئے اس نے خاص قدم نہیں اٹھائے۔ فسادات کے بعد مسلم دنیا لوٹ جانے کے بعد جاگنے کی عادت سے متاثرین کو کچھ راحت نصیب نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ظلم و زیادتیوں کا شکار بنانے والی طاقتوں کو روکنا ضروری ہے مگر یہ قدم کن خطوط پر اٹھایا جائے، اس کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں بنایا جاسکا۔ جمہوریہ وسطی افریقہ ہو یا میانمار یا ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات ان کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے مضبوط لائحہ عمل کی کمی ہے۔ تنظیم اسلامی کارپوریشن نے اپنے عاملہ کمیٹی اجلاس میں نسل کشی اور نسلی امتیازات ختم کرانے مہم چلاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا کرنے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ عیسائیوں کی اکثریت والے ملک جمہوری وسطی افریقہ میں جھگڑا اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک مسلم قائد نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ مسلمان کو حکمران کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عیسائیوں کے فرقہ پرست ٹولے نے مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کردیئے۔ فسادات کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہے، مگر حکمراں طبقہ کسی بھی فرقہ پرست کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا نہیں چاہتا۔ مجرمانہ ٹولے اندھادھند طریقوں سے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ لیتے ہیں اور ان کا قتل عام کرتے ہیں،

اس کے باوجود سکیورٹی عملہ حرکت میں نہیں آتا۔ ساری دنیا میں ایک طرف مسلمانوں پر مظالم ہورہے ہیں، اسلام کے خلاف منفی پروپگنڈہ چلایا جارہا ہے۔ ان کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے او آئی سی کو ٹھوس کارروائیوں کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرکے داخل اسلام ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں میں مسلمانوں پر مظالم ، مخالف اسلام نفرت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ڈنمارک میں دلآزار خاکوں کی نمائش کے بعد اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ سے لے کر لندن، فرانس، یوروپ، جرمنی، چین، ہو یا ہندوستان ہر جگہ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی گلوکار ہنس راج ہنس نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس طرح اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف نفرت کا اظہار بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ میں ایک سفارت کار جورف اسٹافورڈ نے اسلام قبول کیا تو وائیٹ ہاؤز نے اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا تھا۔ سوڈان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر جوزف نے انصارالسنہ کے مرکز سے رجوع ہوکر اسلام قبول کیا تھا۔ اسے بھی دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے کے لئے مجبور کردیا گیا۔ ایم ٹی وی کے مقبول اینکر کرسٹائن بیکر نے بھی اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا تو اسے ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اسلام کے خلاف تعصب پسندی نے مسلمانوں کو زچ کرنے کا عمل شروع کرنے کی ترغیب دی ہے، اس لئے عالمی سطح پر اسلام دشمن عناصر کی منفی پروپگنڈہ مہم کو روکنے موثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ مغربی معاشرہ کی تباہ کن صورتِ حال کے باوجود اس کو فروغ حاصل ہے۔ مغربی معاشرے کو قریب سے دیکھنے والوں نے اسلام کی پاکیزگی کو پسند کرکے کلمہ شہادت پڑھا ہے تو ان نومسلموں کا تاثر مسلم نوجوانوں کے لئے نصیحت آمیز بھی ہے۔ مغرب کی نام نہاد تہذیب اور اس کے معاشرے کو قریب سے دیکھنے والوں کو احساس ہورہا ہے کہ ان کا معاشرہ خطرناک ہے اور یہ بہت خوبصورت، چمک دار ہے۔ جب قریب سے دیکھا جائے تو اس کی بھیانک شکل دکھائی دیتی ہے۔

ساری دنیا میں اس وقت مسلمان خوار و زبوں حال ہیں۔ ان کے دل گرفتہ و شکستہ ہیں۔ ذلت و رسوائی کا شکار ہیں مگر یہ اسلام سے وابستگی کے سبب نہیں ہے بلکہ قرآن حکیم سے دوری اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ اسلام آج بھی سلیم الفطرت انسانوں کیلئے پرکشش ہے۔ اسلام دشمنوں کو یہی بات سمجھانے کے لئے تبلیغ کا فریضہ عام ہونا ضروری ہے۔ جمہوری وسطی افریقہ کے مسلمانوں پر مظالم ہوں یا میانمار اور ہندوستانی مسلمانوں کے دکھ درد، ہر ایک کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے تمام مسلم ملکوں کو اپنا ایک مضبوط گروپ بنانا ہوگا۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں بااختیار بناکر اقوام متحدہ کے خطوط پر ترقی دی جائے تو مسائل کا حل ممکن ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں صدر ایران حسن روحانی نے تنظیم اسلامی کارپوریشن پر زور دیا تھا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر ہونے والے مظالم کو روکنا تنظیم اسلامی کارپوریشن کی اصل ذمہ داری ہے تو اس تنظیم کے ہاتھوں کو مضبوط بنانا بھی ناگزیر ہے۔