سرکاری و خانگی اسکولس کے نصاب میں یکسانیت ، خانگی ناشروں کے کتب پر بھی غور و خوض
حیدرآباد 26 فروری (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ اول تا پنجم جماعتوں میں سرکاری نصاب کے نفاذ کے متعلق آئندہ دو ہفتوں میں قطعی فیصلہ کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس سلسلہ میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیداروں اور ریاستی کابینہ میں موجود متعلقہ وزراء کے درمیان مشاورت کا عمل شروع ہوچکا ہے اور وہ آئندہ تعلیمی سال اول تا پنجم جماعتوں میں سرکاری نصاب کے لزوم کے متعلق قطعی فیصلہ 15 مارچ سے قبل کریں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت سے کی گئی متعدد نمائندگیوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت نے سال گزشتہ جو احکام جاری کئے تھے کہ تمام اسکولوں میں سرکاری نصاب کو لازمی قرار دیا جائے اور کسی خانگی ناشر کی کتب نہ پڑھائی جائیں، اِس فیصلہ پر ازسرنو غور کرنے کے لئے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر حکومت نے تجاویز وصول کرنا شروع کردی ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران اِس سلسلہ میں ناشرین کے علاوہ بعض خانگی اسکولوں کے ذمہ داروں نے عدالت سے بھی رجوع ہوتے ہوئے راحت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ علاوہ ازیں مختلف اسکولوں کی تنظیموں کی جانب سے حکومت سے نمائندگی کرتے ہوئے اِس لزوم کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن تاحال اِس سلسلہ میں کوئی واضح احکام جاری نہ ہونے کے باعث صورتحال اب تک بھی غیر واضح ہے۔ سال گزشتہ جاری کردہ احکامات کے نفاذ میں ہونے والی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے تعلیمی اداروں پر سختی نہیں کی تھی لیکن تعلیمی سال 2016-17 ء کے آغاز سے حکومت نے سرکاری نصاب کے لزوم کو یقینی بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے لیکن گزشتہ چند یوم سے شروع ہوئی سرگرمیوں کے بعد یہ اطلاع موصول ہورہی ہے کہ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی مسٹر کے ٹی راما راؤ نے دیگر کابینی رفقاء سے اِس سلسلہ میں مشاورت کی یقین دہانی کروائی ہے اور کہا ہے کہ وہ بہت جلد متعلقہ وزیر سے بات چیت کے بعد اِس بات کا قطعی فیصلہ کریں گے۔ ریاست تلنگانہ میں موجود اسکولوں میں اول تا پنجم خانگی ناشرین کی کتب پڑھائی جاتی ہیں اور اسکول انتظامیہ کا ادعا ہے کہ حکومت کے نصاب سے بہتر نصاب خانگی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اِسی لئے طلبہ میں مسابقت پائی جاتی ہے لیکن حکومت کے عہدیداروں کا یہ استدلال ہے کہ ایس ایس سی امتحانات میں طریقہ کار کی تبدیلی کے بعد یہ ضروری ہوچکا ہے کہ تمام طلبہ کی یکساں تعلیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ سرکاری و خانگی اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کے معیار تعلیم میں بڑھ رہے عدم یکسانیت کے رجحان کو کم کیا جاسکے اور تمام طلبہ کو یکساں تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔