مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اولاد کی چاہت و محبت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسلام کے بنیادی احکام کی آگہی اور اس پر عمل کے ساتھ عصری علوم میں ہماری اولاد ضرور اوروں سے آگے رہے، چونکہ اسلام نے معاد(آخرت) کے ساتھ معاش(دنیا) کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا ہے، اسلئے عصری علوم کی توجہ میں ایسا انہماک نہ ہونا چاہئے کہ جس کی وجہ دینی و اسلامی نہج سے تربیت میں کمی و کوتاہی رہ جائے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی دائمی زندگی کا نام ہے، فانی زندگی کیلئے جو کچھ کیاجاسکتا ہے ضرور کیا جانا چاہئے لیکن اس کی فنا کی حیثیت کو ضرورمدنظر رکھنا چاہئے اور اسی حیثیت سے اس کی فکر کرنی چاہئے، اُخروی زندگی کی دوامی حیثیت کے پیش نظر اس کی اتنی ہی فکر کی جانی چاہئے۔ عصری علوم میں مہارت و کمال کی جہاں تک بات ہے اس جہت سے بھی جائزہ لیا جائے تو ہماری اولاد عصری علوم میں بھی اوروں کے بالمقابل بچھڑے پن کا شکار ہے، اسلامی ودینی نقطہ نظر سے تو اس وقت بڑی مایوسی ہے، ماںباپ کی جیسی توجہ دینی نہج سے اپنی اولاد کی تربیت کیلئے ہونی چاہئے وہ بڑی حد تک مفقود ہے جس کی وجہ آئے دن ایسے واقعات اخبارات کی زینت بن رہے ہیں جو ماںباپ اور خاندان والوں کیلئے بڑے روح فرسا ہیں، جس سے امت مسلمہ کا سر شرم سے جھک رہا ہے ۔
اولاد و نسل ماںباپ اور خاندان کی جانشین ہوتی ہے، علم و عمل، اخلاق و کردار کے اعتبار سے وہ اپنے خاندان کی نمائندہ تصور کی جاتی ہے، ماںباپ کی اسلامی اخلاق و اقدار پر مبنی زندگی اور اسی نہج سے اپنی نسلوں کی تربیت خاندان کا نام روشن کرتی ہے۔ اس وقت معاشی جھمیلوں نے ماںباپ کو اولاد سے غافل کردیا ہے، کچھ ماںباپ ایسے ہیں جو معاشی تگ ودو میں بیرون ملک مقیم ہیں، بیرونی ممالک میں غیرملکی بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کی کوئی سہولت نہیں ہے، ماں باپ مجبوراً اپنی اولاد کو تعلیم کی غرض سے اپنے ملک میں رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، ماںباپ دونوں کی یا باپ کی غیرموجودگی اولاد کی بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ اسلام نے اولاد کی تربیت کیلئے ماں کی ممتا و محبت کے ساتھ باپ کی شفقت و محبت اور بوقت ضرورت تادیب کی ضرورت واہمیت کو تسلیم کیا ہے، بچپن کی زندگی میں بچے ماںباپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، انکی زندگی، انکا رہن سہن اور انکا رکھ رکھاؤ اور برتاؤ معصوم بچوں کے دل و دماغ پر نقش ہوکر زندگی کی شاہراہ میں قدم آگے بڑھانے میں روشنی دکھانے کا کام کرتا ہے، طفلانہ زندگی کی حدوں سے آگے بڑھ کر جب شعور و آگہی کی منزل میں بچے قدم رکھتے ہیں اور جہاں سے پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کی عملی جدوجہد کا آغاز ہونے جاتا ہے اس میں ماں سے زیادہ باپ کا بڑا اہم رول ہواکرتا ہے، چنانچہ اس مقصد کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے باپ کو محبت بھرا دل دینے کے ساتھ اس کو مردانہ وجاہت کی وجہ رعب و داب کا مالک بنایا ہے۔ نوخیز نسلوں اور کمسن نوجوانوں کیلئے چھ سات سال کی عمر سے اٹھارہ تا بیس سال کی عمر کا درمیانی حصہ بڑا نازک ہوتا ہے، اس دور میں ماں کی پیاربھری محبت آمیز تعلیم و تربیت کے ساتھ باپ کی تعلیم و تربیت میں شبانہ روز خصوصی نگرانی و توجہ درکار ہوتی ہے، اسلئے معاشی ضروریات کی تکمیل کیلئے تعیشات کی دوڑ میںآگے جانے کے بجائے قناعت کی راہ اختیار کی جائے، اپنی چاہتوں اور عیش و آرام کو قربان کرکے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور جب دس سال کی عمر کا ہوجائے پھر بھی وہ نماز سے تساہل برتے تو اس کی سرزنش کرو‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ)۔ مقصود یہ ہے کہ بچہ بتدریج جیسے شعور کی منزل کو پہنچتا ہے ویسے ہی بتدریج اسلامی نقطہ نظر سے دین حق کے شعور کی ترقی ہوتی رہے، صحیح معنی میں دین حق کی آگہی ایک انسان کو کامل انسان بناتی ہے اور معاشرہ کا ایک اچھا انسان ہونا ثابت کرتی ہے۔
اسلام دین رحمت ہے، اس نے جو اعتقادی فکر دی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ سبحانہ رزّاق ہے اور یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ جیسے اس نے پیدا کیا ہے ویسے وہ اپنی مخلوق سے ہرایک کا روزی رساں ہے، اس کی شان رزّاقیت کسی کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتی، یہ صحیح ہے کہ یہ دنیا دارالاسباب ہے، انسان اسباب اختیار کرنے کا پابند ہے، محنت و جدوجہد کے بعد جوکچھ ملیگا وہ اس کا مقدر ہے، بہت ممکن ہے کہ کم محنت کرنے والے کو زیادہ ملے اور بہت محنت کرنے والے کو کم ملے، اس کا ہرایک کو دن رات مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، اس یقین کو تازہ کرلیا جائے تو پھر معاشی مسائل کوئی مسئلہ نہیں رہ جاتے، وہ خالق و مالک جو بیرون ملک رزّاق ہے وہ اندرون ملک بھی ہمارے اپنے وطن میں ہمارے گمان و یقین سے کہیں زیادہ رزق دینے والا ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں اس نقطہ نظر کو ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے ۔