اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے حکومت تلنگانہ کی سنجیدگی کا امتحان

غیرمجاز قبضوں کی برخاستگی کیلئے منفرد قانون کا مسودہ، وقف بورڈ کو زائد اختیارات کی گنجائش
حیدرآباد۔/16 ستمبر، ( سیاست نیوز) ریاست میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں تلنگانہ حکومت کی سنجیدگی کا امتحان ہے۔ اوقافی جائیدادوں کو تباہی سے بچانے اور غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی کیلئے ریاستی سطح پر ایک منفرد قانون کے مسودہ کو تیار کیا گیا۔ وقف بورڈ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی عہدیدار نے ایک جامع قانون کے مسودہ کو تیار کیا ہے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر محمد اسد اللہ جو ریونیو ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور قانون کے ماہر ہیں انہوں نے اس قانون کے مسودہ کو تیار کیا ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ وقف پراپرٹیز ( انسداد ناجائز قبضے و غیر قانونی قبضوں کی برخواستگی ) قانون کے نام سے یہ مسودہ تیار کیا گیا جس میں وقف بورڈ کو زائد اختیارات کی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ غیر مجاز قبضوں کو باآسانی ختم کیا جاسکے۔ محمد اسد اللہ نے ریاستی قانون کا مسودہ جون میں حکومت کو روانہ کیا تھا لیکن آج تک حکومت نے اس قانون کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ گذشتہ تین ماہ سے مسودہ قانون کی فائیل حکومت کے لاء ڈپارٹمنٹ میں کلیئرنس کی منتظر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ قانون کے عہدیداروں نے بھی اس قانون کو ملک میں اپنی نوعیت کا منفرد قانون قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ابھی تک اسے منظوری نہیں دی۔ حکومت اگر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں سنجیدہ ہو تو اسے فوری طور پر اس مسودہ کو منظوری دیتے ہوئے اسمبلی میں قانون سازی کرنی چاہیئے۔ اوقافی اُمور کی نگرانی اور انتظام فی الوقت مرکزی حکومت کے وقف ترمیمی ایکٹ 2013 کے تحت کیا جارہا ہے جس میں غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی کیلئے سخت قانون اور وقف بورڈ کے اختیارات میں اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سنٹرل ایکٹ نے غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی کا اختیار چیف ایکزیکیٹو آفیسر سے حاصل کرتے ہوئے وقف ٹریبونل کو دیا ہے۔ بورڈ کے عہدیداروں کے مطابق ریاستی قانون کی منظوری کی صورت میں چیف ایکزیکیٹو آفیسر غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی کی کارروائی کرسکتے ہیں اور انہیں ہر معاملہ کیلئے ٹریبونل سے رجوع ہونے کی ضرورت نہیں۔ تلنگانہ میں وقف ٹریبونل تشکیل دیا گیا لیکن ابھی تک اس نے باقاعدہ کارکردگی کا آغاز نہیں کیا ہے۔ اس طرح گزشتہ دو سال میں ٹریبونل سے غیر مجاز قبضوں کی برخواستگی کے احکامات حاصل نہیں کئے جاسکے۔ مجوزہ ریاستی قانون کی منظوری کی صورت میں چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے احکامات پولیس اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے عہدیداروں کیلئے لازمی طور پر قابل عمل ہوں گے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے تحت انسپکٹر پولیس رتبہ کے عہدیدار کے ساتھ 10کانسٹبلس اور دیگر اسٹاف پر مشتمل اسکواڈ رہے گا جن کی مدد سے غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کیا جاسکتا ہے۔ غیر مجاز قبضہ کی برخواستگی کے بعد اگر اس پر دوبارہ قبضہ کیا گیا تو اس صورت میں قید بامشقت اور 5 لاکھ روپئے جرمانہ کی سزا رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ غیر مجاز قبضوں اور فروخت کرنے والوں کو تین تا پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپئے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے احکامات پر کلکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو عمل کرنا ہوگا۔مذکورہ ریاستی قانون کی منظوری کے ذریعہ حکومت کئی ہزار کروڑ کے اوقافی جائیدادوں کا تحفظ کرسکتی ہے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر محمد اسد اللہ نے جس سنجیدگی سے اس مسودہ قانون کو تیار کیا ہے وہ یقینا کسی کارنامہ سے کم نہیں اور یہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں مستقبل میں کارگر ثابت ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ آندھرا پردیش کے اقلیتی بہبود کے عہدیدار مسودہ قانون دیئے جانے کی خواہش کررہے ہیں تاکہ آندھرا پردیش میں اسے نافذ کیا جاسکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس حکومت اس مسودہ قانون کو کب منظوری دے گی۔