اوقافی جائیدادوں کے تحفظ پر حکومت کے دعوے محض زبانی اور کھوکھلے

اسپیشل آفیسر کے مسئلہ پر ٹال مٹول کی پالیسی ‘ اہم کام ٹھپ ‘ بورڈ میں فائیلوں کی الٹ پھیر کی کوششیں تیز
حیدرآباد۔/28اپریل، ( سیاست نیوز) اوقافی جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق تلنگانہ حکومت کے وعدے اس وقت کھوکھلے ثابت ہوئے جب وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر کی عدالت سے بحالی کے سلسلہ میں ایک ماہ سے زائد عرصہ سے ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے۔ حکومت ایک طرف ہائی کورٹ کے سنگل جج کے فیصلے کے خلاف ڈیویژن بنچ پر اپیل کا ارادہ ظاہر کررہی ہے تو دوسری طرف مختلف مفادات حاصلہ کے دباؤ کے تحت اپیل دائر کرنے میں تاخیر ہورہی ہے۔ اب جبکہ ہائی کورٹ کو گرمائی تعطیلات کے آغاز کیلئے صرف دو دن باقی ہیں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایڈوکیٹ جنرل دو دنوں میں اپیل دائر کریں گے۔ اس کے بعد 3جون تک گرمائی تعطیلات رہیں گی اس مدت کے دوران عدالت صرف انتہائی اہم نوعیت کے اُمور کی سماعت کرتی ہے۔ وقف بورڈ کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب یہ ادارہ اپنے سربراہ سے محروم ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے باعث وقف بورڈ میں درپردہ کیا سرگرمیاں انجام پارہی ہیں اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ 24مارچ کو ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے اسپیشل آفیسر کے تقرر کے احکامات کو کلعدم کردیا تھا جس کے بعد سے حکومت صرف قانونی رائے حاصل کرنے میں مصروف ہے لیکن ابھی تک ایڈوکیٹ جنرل کے ذریعہ عدالت میں اپیل دائر نہیں کی گئی۔ وقف بورڈ میں اسپیشل آفیسر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ادارہ کے سربراہ کی عدم موجودگی کے سبب کوئی بھی اہم فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف غیر مجاز قابضین اپنی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کرچکے ہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق وقف بورڈ میں موجود فائیلوں میں اُلٹ پھیر کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ دیڑھ ماہ سے وقف بورڈ نے غیر مجاز قابضین، اراضیات کے تحفظ اور دیگر اہم اُمور کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ حکومت کی اس عدم دلچسپی کا خمیازہ اوقافی جائیدادوں کی تباہی کی صورت میں منظر عام پر آسکتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت خود غیر مجاز قابضین کو اپنی کارروائیوں کو انجام دینے کیلئے موقع فراہم کررہی ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ریاست کے ایڈوکیٹ جنرل خود بھی اپیل دائر کرنے کے خلاف ہیں اور وہ اسپیشل آفیسر کی بحالی کے بجائے سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل کے حق میں ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے چیف منسٹر کو اپنی رائے سے واقف کردیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت پر اس کی حلیف سیاسی جماعت کا مسلسل دباؤ ہے کہ اسپیشل آفیسر کی بحالی کے بجائے ان کے سفارش کردہ افراد پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل کیلئے عدالت میں تجویز پیش کی جائے اور ہائی کورٹ سے اس کی منظوری حاصل کی جائے۔ حکومت نے کئی ماہ کے بعد چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے عہدہ پر ڈپٹی کلکٹر رینک کے عہدیدار کا تقرر کیا اور انہوں نے گزشتہ جمعہ کو اپنے عہدہ کی ذمہ داری سنبھالی لیکن بتایا جاتا ہے کہ وقف مافیا کے زیر اثر وقف بورڈ کا ماتحت عملہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر سے تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں۔