سابق صدر اوباما کی حکومت پر تنقید، ٹرمپ کی جانب سے کم جونگ کا مضحکہ اڑانے کی تردید
ٹرمپ جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں اور صدر امریکہ حیثیت سے انہیں خاموش نہیں رہنا چاہئے
وائیٹ ہاؤس ترجمان سارہ سینڈرس کی مسلسل دوسرے روز پریس بریفنگ
واشنگٹن ۔ 4 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان لفظی جھڑپیں آخر کہاں جارکر رکیں گی اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ شمالی کوریا کے قائد کم جونگ ان امریکہ کے خلاف ایک بیان دیتے ہیں تو امریکہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہا ہے۔ دو روز قبل کم جونگ نے کہا تھا کہ نیوکلیئر میزائل کا بٹن ان کی میز پر ہی رہتا ہے جسے وہ جب چاہے دبا سکتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کے پاس شمالی کوریا سے بھی بڑا اور طاقتور بٹن موجود ہے اور وہ کارکرد بھی ہے اور اب وائیٹ ہاؤس کو کم جونگ کی دماغی حالت پر بھی شبہ ہے کیونکہ امریکہ کے مطابق ہوش و حواس کا حامل کوئی بھی قائد ایسے بیانات نہیں دے گا جو اس وقت کم جونگ دے رہے ہیں اور وہ بھی دھمکی آمیز انداز میں۔ وائیٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارہ سینڈرس نے اپنی روزانہ کی نیوز بریفنگ کے دوران اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اور امریکی عوام کو شمالی کوریا کے قائد کی دماغی صحت پر تشویش ہے۔ وہ دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہے ہیں اور میزائلوں کے ٹسٹ پر ٹسٹ کررہے ہیں۔ سارہ سینڈرس نے یہ بات صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی جہاں ان سے ٹرمپ کے نیوکلیئر بٹن کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا جس کا تذکرہ انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں کیا تھا۔ سارہ سینڈرس نے مزید کہا کہ ہمارے صدر کوئی بزدل شخص نہیں ہیں اور نہ ہی کمزور۔ ان کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہیکہ جو وعدے کرتے ہیں اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں امریکی عوام کا تحفظ شامل ہے۔ یاد رہیکہ صرف ایک روز قبل ہی ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے قائد کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس بھی نیوکلیئر بٹن ہے اور وہ کام بھی کرتا ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کیا کوئی فاقہ کشی کا شکار شمالی کوریا کے قائد کو یہ سمجھائے گا کہ میرے پاس بھی ایک بڑا اور طاقتور بٹن موجود ہے۔ کم جونگ ان نے اپنے نئے سال کے ٹیلیویژن خطاب کے دوران امریکہ کو واضح طور پر کہا تھا کہ وہ (امریکہ) ہمارے ساتھ کبھی جنگ نہیں کرسکتا۔ آج ضررت اس بات کی ہے کہ شمالی کوریا نیوکلیئر جنگی سازوسامان اور بالسٹک میزائلس تیار کرے اور ان کی تنصیب کو بھی یقینی بنائے۔ سارہ سینڈرس کے مطابق ڈونالڈ ٹرمپ شمالی کوریائی قائد کی دھمکیوں کی وجہ سے تشویش میں مبتلاء ہیں کیونکہ کسی بھی ملک کا سربراہ ایسی دھمکی آمیز زبان کا استعمال نہیں کرتا جیسی کم جونگ استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ بھی آخر ایک سوپر پاور ملک کے صدر ہیں۔ کوئی بھی چھوٹا موٹا ملک امریکہ کی شان میں اناپ شناپ کچھ بھی بکے اور ٹرمپ خاموش ہوجائیں ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ ٹرمپ اگر جواب نہ دیں تو ایسے چھوٹے موٹے ممالک کے حوصلے اور بھی بلند ہوجاتے ہیں۔ یہ بات دنیا جانتی ہیکہ ٹرمپ کا کیا مرتبہ ہے اور شمالی کوریا کے تعلق سے ہمارا موقف کیا ہے۔ آج تک ابتداء سے ہی شمالی کوریا سے متعلق امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے صدر امریکی عوام کے تحفظ کے پابند ہیں اور وہ اپنے اس وعدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ سارہ سینڈرس نے البتہ یہ وضاحت بھی کردی کہ ٹرمپ اپنے ٹوئیٹس کے ذریعہ شمالی کوریائی قائد کا مضحکہ نہیں اڑاتے ہیں جبکہ امریکہ کے لئے سب سے خطرناک بات یہ ہیکہ کم جونگ کی ہر دھمکی کو نظرانداز کردیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ نفسیاتی طور پر یہ حربہ کارآمد ثابت ہوجائے کہ کوئی کتنی بھی دھمکی دے ہم خاموش رہیں گے اور دھمکی دینے والا بالآخر تھک ہار کر خاموش بیٹھ جاتا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ امریکہ جیسا سوپر پاور ملک اگر کسی چھوٹے موٹے ملک کو دھمکائے اور وہ خاموش ہوجائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کوئی چھوٹا موٹا ملک امریکہ کو دھمکائے اور امریکہ خاموش بیٹھ جائے تو یہ بات ناقابل فہم ہے بلکہ نفسیاتی حربہ کے مطابق بھی امریکہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے ایک چبھتی ہوئی بات کہتے ہوئے سابق صدر بارک اوباما حکومت کو بھی تنقیدوں کا نشانہ بنایا کہ اگر اوباما انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہتا اور اس وقت شمالی کوریا کے ہتھیاروں پر پابندی عائد کردیتا تو آج ہمیں ان وضاحتوں اور کچرا صاف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہی نہیں ایران کیلئے بھی سابق صدر کا موقف موجودہ انتظامیہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔