اوباما کی مہمان نوازی

وعدے پورے نہ ہوئے وہ جو کئے تھے ہم نے
بھول بھی جاؤ کہ یہ بات ہے رسوائی کی
اوباما کی مہمان نوازی
ہند ۔ امریکی تعلقات کو ایک نئی بلندی عطا کرنے کیلئے نریندر مودی زیرقیادت حکومت نے صدر بارک اوباما کے ساتھ مختلف مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے سیول نیوکلیئر معاہدہ کے تعطل کو ختم کردیا۔ یوم جمہوریہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اوباما کی شرکت کو دونوں ملکوں کے درمیان ’’دوستی‘‘ کی ایک نئی تاریخ رقم ہونے کا ثبوت سمجھا جارہا ہے۔ دونوں جانب کے اعلیٰ سطحی اداروں نے وزیراعظم مودی کی کوششوں کی ستائش کی۔ انہوں نے 2032 میں 63000 میگاواٹ برقی پیدا کرنے ہندوستان کی کوشش کو کامیاب بنانے کی سمت مؤثر قدم اٹھایا ہے۔ سیول نیوکلیئر معاہدہ پر امریکہ نے اپنے مفادات کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یہ معاہدہ کانگریس حکومت میں ہونے والا تھا مگر بی جے پی نے بحیثیت اپوزیشن پارٹی امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے سیول نیوکلیئر معاہدہ میں کئی نقص نکال کر مخالفت کی تھی۔ سیول لائیبلٹی فار نیوکلیئر ڈیمیج ایکٹ 2010ء پر بی جے پی اور بائیں بازو نے ہنگامہ مچایا تھا مگر اب اقتدار ملتے ہی بی جے پی نے اس قانون کے تعلق سے اپنے موقف میں تبدیلی لا کر قومی سطح پر عوام کی آنکھ میں دھول جھونک دیا ہے۔ کل تک بی جے پی نے کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت کو سیول نیوکلیئر قانون کے بارے میں شدت سے تنگ کا تھا۔ سابق بی جے پی لیڈر یشونت سنہا نے پرشورانداز میں سیول نیوکلیئر معاہدہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے مفادات امریکہ کو فروخت کردیئے جارہے ہیں۔ اب سوال یہ ہیکہ آیا مودی حکومت نے ہندوستان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اوباما سے بات چیت کی ہے یا اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرکے دوستی کے پیام کے نام پر ہندوستانی وسائل کا سودا کیا ہے۔ امریکہ میں کہیں بھی ایسے خطرناک پلانٹس قائم نہیں کئے جاتے وہ اپنے ملک سے ہٹ کر دیگر اقوام کی سرزمین پر اس طرح کے جان لیوا پلانٹس قائم کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بھوپال گیس سانحہ کے بعد حکومت ہند نے ہوش کے ناخن لیئے تھے مگر اب مرکز کی برسراقتدار بی جے پی حکومت اپنے عوام کے جان و مال کی پرواہ کئے بغیر معاہدوں کو اہمیت دے رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے صدر بارک اوباما سے دیگر امور پر بھی بات چیت کی ہے خاص کر جنوبی ایشیاء میں پڑوسی ملکوں کے تعلق سے امریکہ کا موقف مختلف ہے۔ چین اور جاپان، ہندوستان کے لئے اہم ممالک ہیں جبکہ امریکہ ان دونوں ملکوں کے تعلق سے تحفظ ذہنی رکھتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ مودی حکومت کے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن بارک اوباما کا امریکہ ، پاکستان کو ہرگز نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے سربراہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے تو آئندہ برسوں میں جنوبی ایشیاء میں چین، جاپان اور پاکستان کے حوالے سے دونوں ملکوں میں کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ چین اور جاپان میں بھی سرمایہ کاری اور دیگر ترقیاتی کاموں کی تیزی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان ان سے قربت پیدا کرنے میں دلچسپی رکھے تو ایک اچھی علامت ہوگی۔ ویسے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کیلئے مودی حکومت کی ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی پر بیرونی راست سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کردیئے گئے ہیں مگر ہندوستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے امریکہ کے پاس اتنا فنڈ نہیں ہے کہ وہ آگے چل کر اس کی مدد کرسکے۔ ہندوستان کو اپنے تیز رفتار ریلویز یا ایکسپریس ویز کیلئے کثیر فنڈس درکار ہے۔ آئندہ 30 تا 40 سال کی مدت میں یہ فنڈ درکار ہوگا۔ ایسے میں صرف چین اور جاپان ہی ہندوستان کی مدد کرسکتے ہیں اور اس کے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ان طاقتور ملکوں سے ہندوستان کی دوستی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی ہونی چاہئے تھی مگر امریکہ کے ساتھ مودی حکومت کے غیرمعمولی دلچسپی دیگر عنوانات پر سوالیہ نشان بن رہی ہے۔ امریکی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری سے کس حد تک دلچسپی ہوگی یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ وزیراعظم مودی نے بارک اوباما کی میزبانی کرکے ہندوستان کی جانب ساری دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہوئے بیرونی راست سرمایہ کاری کیلئے سب سے بڑی فضاء قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے تو ایسے میں ان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ وہ ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی کو مؤثر بنا کر یہاں پیداوار کے عمل کو تیز کردیں۔ ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کا انحصار روزگار کی فراہمی پر ہے۔ ہندوستانی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار ملے گا تو بلاشبہ ہندوستانی معیشت کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکہ کے ساتھ دوستی کو مضبوط کرنے کے ساتھ معاشی امور پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ اس کیلئے پیشہ ورانہ سفارتکاروں کو اس سمت میں مصروف رکھ کر ہندوستانی معاشی امور کو کامیاب بنانے پر توجہ دیا جانا چاہئے۔