انکاونٹر واقعات پر سپریم کورٹ کی رولنگ

پولیس عہدیداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور تحقیقات کی ہدایت
حیدرآباد ۔ 24 ۔ ستمبر : ( سیاست نیوز ) : فرضی انکاونٹرس میں ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط سے تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں پولیس فورسیس کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ جب کہ دونوں ریاستوں میں جاریہ سال 10 انکاونٹر کے واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں ۔ اگرچیکہ پولیس عہدیدار بیشتر کیسوں میں قانون تعزیرات ہند کے دفعہ 307 ( اقدام قتل ) کے تحت متاثرین کے خلاف ایف آئی آر درج کئے ہیں لیکن انکاونٹر کے ذمہ دار پولیس فورس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جو کہ بلا خوف و خطر فائرنگ کردیتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس عہدیدار اس وقت تک دفعہ 302 پارٹ II ( قتل عام ) یا دفعہ 302 ( قتل ) کے تحت کیس درج نہیں کرتے تاوقتیکہ اس معاملہ میں عدالت مداخلت نہیں کرتی تاہم سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ سے یہ لازم ہوگیا ہے کہ متعلقہ پولیس اسٹیشن میں انکاونٹر میں ملوث پولیس عملہ کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے اور ایک آزاد تحقیقاتی ادارہ کے ذریعہ تحقیقات کا سامنا کرنے ایک سینئیر پولیس آفیسر نے یہ ریمارک کیا کہ عدالت العالیہ کے ریمارکس سے مخالف ماویسٹ پولیس فورس گرے ہانڈس کو دفاعی موقف میں ڈال دیا ہے ۔ انکاونٹر کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں جو کہ ناگزیر حالات یا پھر سماج کے وسیع تر مفادات میں رونما ہوتے ہیں ۔ پولیس عہدیداروں کا یہ استدلال ہے کہ انکاونٹر واقعات کی تحقیقات سے نہ صرف اعلیٰ عہدیداروں اور فیصلہ سازوں کا انکشاف ہوجائے گا بلکہ پرموشن اور بہادری کے ایوارڈس عطا کرنے میں تاخیر یا انکار سے پولیس فورس کے حوصلے پست ہوجائیں گے ۔ کیوں کہ پولیس عملہ انکاونٹر کے وقت اپنی زندگی داؤ پر لگادیتے ہیں ۔ اگر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا تو پھر مجرمین کا تعاقب کیونکر کیا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ سائبر آباد پولیس نے حال ہی میں شمس آباد کے قریب ایک بدنام زمانہ رہزن شیوا کمار کو مار گرایا تھا ۔ جب کہ تلاشی مہم کے دوران پولیس کے ہاتھ لگاتھا قبل ازیں شاہ میر پیٹ میں جعلی کرنسی کی ٹولی پر پولیس نے فائرنگ کی تھی ۔ علاوہ ازیں گنٹور میں 2 ماویسٹوں کو گولی مار دی گئی تھی ۔ جب کہ شیشا چلم علاقہ ( ضلع چتور ) میں سرخ صندل کے اسمگلروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور پرانا شہر علاقہ کے سکھ چھاونی میں بے قابو ہجوم پر پولیس کی فائرنگ سے 3 نوجوانوں کی موت واقع ہوگئی ۔ دریں اثناء پیپلز یونین فار سیول لبرٹیز اور دیگر حقوق انسانی تنظیموں نے یہ دعوی کیا ہے کہ قومی حقوق انسانی کمیشن بے اختیار ادارہ ہے جو کہ انکاونٹر کے ذمہ دار پولیس عہدیداروں کے خلاف تحقیقات اور مہلوکین کے ورثاء کو معاوضہ کے تعین سے قاصر ہے ۔ عموما انکاونٹر واقعات کی آر ڈی او یا تحصیلدار کے ذریعہ تحقیقات کروائی جاتی ہے ۔ جب کہ عدالت میں مناسب طریقہ پر سماعت کے ذریعہ مجسٹرئیل تحقیقات کروائی جائے ۔ کیوں کہ انکاونٹر واقعہ حقیقت ہے یا فرضی ۔ اس کا صحیح فیصلہ صرف جج ہی کرسکتا ہے ۔۔