انکاؤنٹر میں ہلاک وقار الدین کے تین ساتھی منسوبہ الزامات سے بری

تلنگانہ پولیس کو زبردست دھکہ

حیدرآباد 14 ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ پولیس کو آج اُس وقت ایک بدترین ہزیمت و پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا جب میٹرو پولیٹن سیشن کورٹ نے وقار احمد گینگ کے 3 ساتھیوں کو ہوم گارڈ کے قتل کیس میں باعزت بری کردیا۔ نامپلی کریمنل کورٹ کے سکینڈ ایڈیشنل میٹرو پولیٹن سشن جج نے آج یہ فیصلہ سنایا۔ تفصیلات کے بموجب تحریک غلبہ اسلام کے بانی وقار احمد گینگ سے تعلق رکھنے والے  ریاض خان، محمد عبدالسعید اور ونود کمار ساہو کو کاؤنٹر انٹلی جنس سیل نے سال 2010 ء میں گرفتار کیا تھا۔ اس کارروائی میں  وقار احمد ، سید امجد علی، محمد ذاکر، محمد حنیف، اظہار خان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ کاؤنٹر انٹلی جنس سیل نے دعویٰ کیا تھا کہ 18 مئی سال 2009 ء کو پولیس پیکٹ پر تعینات ہوم گارڈ کے بالا سوامی اور کانسٹبل راجندر پرساد کو وقار احمد اور اُس کے ساتھیوں نے 7.65 پستول سے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجہ میں ہوم گارڈ ہلاک ہوگیا تھا۔ فلک نما پولیس نے اس واقعہ سے متعلق ایک مقدمہ کرائم نمبر 02/2009 درج کیا تھا، اس مقدمہ کو حیدرآباد سٹی پولیس کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم بعدازاں آکٹوپس اور بالآخر کاؤنٹر انٹلی جنس سیل کے حوالہ کیا گیا تھا۔ استغاثہ نے وقار احمد اور اُس کے ساتھیوں پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے اُن کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی اور جملہ 52 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے تھے

 

18 مئی 2007 ء کو تاریخی مکہ مسجد میں پیش آئے بم دھماکے کے بعد ہوئی پولیس فائرنگ جس میں 5 نوجوان ہلاک ہوگئے تھے ، کا انتقام لینے کی غرض سے وقار احمد نے ٹولی تشکیل دیتے ہوئے مکہ مسجد بم دھماکہ کی برسی کو پولیس ملازمین کو نشانہ بنارہا تھا جس کے سبب پولیس کے لئے درد سر بن چکا تھا۔ اس کیس کا مقدمہ زیرالتواء تھا اور 7 اپریل 2015 ء کو ورنگل سنٹرل جیل سے نامپلی کریمنل کورٹ منتقلی کے دوران وقار احمد ، سید امجد علی، محمد ذاکر، ڈاکٹر حنیف اور اظہار خان کو پولیس اسکارٹ پارٹی نے ضلع نلگنڈہ کے آلیر علاقہ میں موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ میٹرو پولیٹن سیشن جج کے اجلاس پر اس کیس کی سماعت کے دوران اسپیشل پبلک پراسکیوٹر  کاؤنٹر انٹلی جنس سیل مسٹر سی سیشو ریڈی اور وکیل دفاع محمد مظفراللہ خان شفاعت نے بحث کی جس کے نتیجہ میں عدالت نے وقار گینگ کے ارکان کو بے گناہ پایا اور اُنھیں باعزت بری کردیا۔ بری ہونے والے نوجوان چرلہ پلی جیل میں محروس ہیں اور اُن کے خلاف کانسٹبل کے قتل کا مقدمہ زیردوران ہے جس کے نتیجہ میں اُن کی رہائی ممکن نہیں۔ بری ہونے والے نوجوانوں کے والدین کا یہ تاثر ہے کہ اگر پولیس اس کیس میں صبر کا مظاہرہ کرتی تو وقار احمد اور اُس کے 4 ساتھی بھی بے گناہ ثابت ہوتے لیکن اس کا موقع دیئے گئے بغیر اُنھیں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کردیا گیا۔ واضح رہے کہ وقار احمد اور اُس کے ساتھیوں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کئے جانے اور پولیس پر الزامات کے نتیجہ میں حکومت نے اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیتے ہوئے انکاؤنٹر کے پس پردہ حقائق کا پتہ لگانے کا حکم دیا تھا لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی ایس آئی ٹی حکومت کو رپورٹ پیش کرنے سے قاصر رہی۔ جبکہ ایس آئی ٹی سربراہ مسٹر سندیپ شنڈالیہ کو پولیس کمشنر سائبرآباد کا عہدہ دے کر اُنھیں مصروف کردیا گیا اور اس سلسلہ میں رپورٹ تعطل کا شکار ہوگئی۔