انکاؤنٹرس یا قتل

قانون اور انصاف کی حکمرانی کو یقینی نہ بنانے والے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں ۔ کاش یہ بات آندھراپردیش اور تلنگانہ کے حکمرانوں کو بھی سمجھ آجائے۔ ضلع نلگنڈہ میں 5 مسلم نوجوانوں کے فرضی انکاؤنٹر میں ایف آئی آر درج کرتے ہوئے فوری متعلقہ پولیس ملازمین پر قتل کا مقدمہ چلانے کا شدید مطالبہ ہونا انسانی فطری امر کا حصہ ہے ۔ 5 مسلم نوجوانوں کو جو عدالتی تحویل میں تھے نہتے اور ہتھکڑیوں میںبندھے تھے ان پر پولیس کے ہتھیار چھین کر فرار ہونے اور پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کے الزامات عاید کرتے ہوئے انکاؤنٹر کرنے کا دعوی کیا گیا ۔ اس فرضی انکاؤنٹر کے واقعہ کو مبینہ طورپر مسلم نوجوانوں کے خلاف کی گئی پولیس کی انتقامی کارروائی بھی قرار دی جارہی ہے ۔عام انسانی ذہن پولیس کی اس کارروائی کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا ۔ 5 مسلم نوجوانو ںکی نگرانی کے لئے 17 پولیس ملازمین تھے ۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلح پولیس ملازمین کی موجودگی میں جیل سے منتقلی کے دوران ان کے فرار ہونے کو سبب بتاکر ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس انکاؤنٹر کو بے رحمانہ قتل قرار دیا جارہا ہے ۔

تلنگانہ پولیس نے جس طریقہ سے اپنی انتقامی کارروائی کو انکاؤنٹر کانام دیا ہے اس کو سراسر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے جو ملزمین عدالتی تحویل میں تھے ان کا قتل عدلیہ سے انصاف اور قانون کے تقدس کے مغائر ہے۔ پولیس اور حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ جس نوجوانوں کو ہتھکڑیاں پہناکر رکھا گیا تھا ان پر ہتھیار چھین کر فرار ہونے کا الزام تلنگانہ کی پہلی ٹی آر ایس حکومت کی نیک نامی کو بدنام کرنے اور اقلیت نواز پالیسیوں کو ناکام بنانے کی ایک سازش ہوسکتی ہے ۔ مسلم تنظیموں اور مسلم قائدین نے اس واقعہ پر جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا اور صرف بیانات سے کام لے کر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے ۔ ٹی آر ایس کے مسلم قائدین اور ڈپٹی چیف منسٹر کے لئے یہ واقعہ غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ انھیں یوں ہی خاموش بیٹھنا ہی دیکھا جائے گا تو پھر آنے والے دنوں میں مسلم نوجوانوں کی جانوں کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ پولیس اور مسلم دشمن عناصر کی گہری سازشوں کا شکار مسلم نوجواں بنتے رہیں گے تو اس معاشرہ کی بے حسی پر ہر انسانی دل صرف ماتم کرتا ہوا نظر آئے گا ۔ آندھراپردیش میں بھی پولیس نے اپنی گھناؤنی کارروائیوں کے ذریعہ 20 نہتے دیہی عوام کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ان پر صندل کی لکڑی کے اسمگلر ہونے کاالزام عائد کیا گیا۔ جن لوگوں کو گولی مار دی گئی انھیں زندہ بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا مگر پولیس نے انسانی موت کو ہی ترجیح دی تو پھر یہ مسلح پولیس نفاذ قانون کے حوالے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتی ہے تو اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔

آندھراپردیش کی پولیس ہو یا تلنگانہ کی پولیس ہر دونوں نے انسانوں کی جان لے کر انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب ہونے کا کام انجام دیا ہے۔ حکومت کو حقیقی معنوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خاطی عہدیداروں کے خلاف سخت نوٹ لینا ہوگا۔ صندل کے اسمگلرس یا دیگر غیرسماجی کارکنوں کے خلاف پولیس کی کارروائی نظم و نسق کی برقراری اور قانون کے نفاذ کیلئے ضروری مگر پولیس کی ناک کے نیچے ہونے والے بڑے بڑے جرائم اور اس کے مرتکبین کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور اپنی کارکردگی یا انتقام لینے کے جذبہ کے عوض انسانوں کا خون بہایا جاتا ہے تو اس طرح کی حرکتوں کو ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ ان واقعات سے گجرات کے رسوا زمانہ انکاؤنٹرس کی یادیں تازہ ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کاتعاقب کرنے والے سرکاری کارندوں کے حوصلے اس لئے بلند ہورہے ہیں کیوں کہ مسلمانوں نے اپنی اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ہمیشہ کوتاہی دکھائی ہے ۔ مسلمانوں نے جب ہاشم پورہ قتل عام کو فراموش کردیا گجرات کے نسل کشی والے فسادات کا غم بھلادیا ،مسلمانوں پر پولیس ظلم کے متعدد واقعات کو روز کا معمول سمجھ کر نظرانداز کردیا ہے تو اس پر آنے والا دن مسلم نوجوانوں کا عرصہ حیات تنگ کرتا جائے گا ۔ حکومتیں اور اس کی سرکاری مشنری مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے انھیں پس ہمت اور کمزور بنانے کیلئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی اور یہ کام برسوں سے جاری ہے جس میں ہر گذرتے دن اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ مسلمان پتھر بھی پھینکنے کی ہمت نہیں دکھاتے ان پر پولیس کی بندوق تان دی جاتی ہے ۔ فیصلے کی آخری قوت اﷲ تعالیٰ کے پاس ہونے کا یقین رکھنے والے مسلمان جب چھوٹے موٹے مفادات اور مصلحتیں ان کے پاؤں کو جکڑلیتی ہیں تو وہ آئے دن ایسے کئی سانحوں کے عینی شاہد ہوں گے ۔