اسلام اپنے اندرمقناطی کشش رکھتا ہے ،اسکی سچائی جب کسی پرآشکارہوجاتی ہے تو پتھرسے پتھر دل کوموم کی طرح نرم کردیتی ہے، پہاڑوں کی چٹانوں میں شگاف پڑسکتا ہے لیکن کوئی اورطاقت اس کوراہ حق سے برگشتہ نہیں کرسکتی۔چونکہ اسلام ہی وہ واحدمذہب ہے جوتوحیدالہ کے ساتھ وحدت انسانیت کی دعوت دیتاہے،حیات وموت دینے والے خالق ومالک نے یہ فطری دین انسانیت کودیا ہے جو زندگی ،موت اورموت کے بعدوالی زندگی کے سارے مسائل کا انسانی فطرت سے ہم آہنگ حل پیش کرتا ہے۔اسلام کے نظام رحمت پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں امن وآمان قائم ہوسکتاہے ،بے غرض تعلق و محبت ،انسانی ہمدردی و رواداری ،انسانیت وشرافت کا دل نوازعظیم تحفہ انسانی سماج کومیسرآسکتاہے۔ اسلام وایمان کی نعمت جنہوں نے وراثت میں پائی ہے ان میں سے اکثر کی ناقدری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ،امت کا ایک بڑاطبقہ نام کا مسلمان ہے جن کا دین ومذہب سے رسمی تعلق باقی رہ گیاہے ۔امت میں اسلام کی حقیقی روح پھونکنے کیلئے پھرسے مجددالف ثانی ،رازی وغزالی ،سعدی وشیرازی ،عبدالقادرالجیلانی،خواجہ اجمیری،بہائوالدین نقشبندی،زکریا ملتانی ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،حاجی امداداللہ مہاجرمکی وغیرہم رحمہم اللہ الباری کثر اللہ امثالہم جیسے عبقری خداترس بندوں کی ضرورت ہے جواصلاح امت کی عملی جدوجہدکیلئے اپنے آپ کووقف کریں اوراسلام کا پیغام انسانیت تک پہنچاتے رہیں، امت مسلمہ دین سے دور،غیراسلامی افکاروخیالات ،بدعات وخرافات میں کھوئی رہے اورایمان کی نعمت سے محروم انسانیت کفروشرک کے سخت اندھیاروں میں بھٹکتی رہے تو پھر خیرامت کے منصب پرفائزامت کیلئے لمحہ فکرہے،اسلام کے ضابطہء حیات سے انسانیت کو روشناس کرانا ،انبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم السلام نے اپنے اپنے ادوارمیں جوپیغام حق انسانیت تک پہنچایا ہے اوراس مقدس گروہ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ نبوت کے آخری کڑی خاتم النبیین سیدالمرسلین ﷺ کے ذریعہ حق سبحانہ نے اس پیغام حق کی روشنی سے کرئہ ارض کے سارے گوشوں کوروشن ومنور فرمایا ’’جن پردین حق کا اکمال و اتمام فرمایااورآپ ﷺ کیلئے اور ساری انسانیت کیلئے دین اسلام کی پسندیدگی کا اعلان فرمایا‘‘ (المائدہ:۳) انسانیت کا ایک بہت بڑاطبقہ جوکفروشرک کی ظلمتوں میں آنکھ کھولا ہے ان میں بہت سے ایسے انسان ہیں جن کیلئے حق سبحانہ نے ہدایت کے دروازے کھول دئیے ہیں وہ اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لے رہے ہیں،دین رحمت تک ان کوپہنچانے میں ایمان والوں کا بہت کم حصہ ہے ،ایمان کی شاہراہ تک ان کو پہنچانے میں ایک تو ان کی دلی بے کلی و بیقراری ،بے سکونی وبے اطمینانی حق پسندی وحق رسی کی تڑپ کا بڑا رول نظرآتاہے،یہی تڑپ ان کواسلام کی حقیقت سمجھنے کیلئے کتاب ہدایت اوررسول رحمت ﷺ کی سیرت طیبہ تک پہنچاتی ہے،پھروہ سارے غبارجواسلام دشمن سماج میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے پیداہوگئے تھے چھٹنے لگتے ہیں ،اس طرح ان کی سچی تڑپ ان کوراہ حق دکھاتی ہے۔دوسرے وہ افراد انسانیت جوروزگارکی تلاش میں اسلامی ملکوں میں پہنچ گئے اوراسلام پسندسچے عملی مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے انہیںکام کرنے کاموقع ملا ،روزوشب کی ملاقاتوں سے یہ ہوا کہ اسلامی اعتقادات واعمال ،معمولات ومعاملات کے جیتے جاگتے عملی نمونے انکے دلوں پر دستک دینے لگے اور اسلامی خوبیاں ان کے دلوں میں گھر کرگئیں ،پھر اسلام ان کے دلوں کی دھڑکن بن گیا جس سے اس حدیث قدسی کی تصدیق ہوتی ہے۔’’ اگرکوئی بندہ ایک بالشت میرے قریب آئے تومیں ایک ہاتھ اسکے قریب آتاہوں،اوراگروہ ایک ہاتھ میرے قریب آئے تودونوں ہاتھوں کے پھیلائو کے برابراس کے قریب ہوجاتا ہوں،اوراگروہ چل کر میرے پاس آئے تو دوڑکرمیں اسکے پاس آتا ہوں ‘‘۔(بخاری:۷۰۹۸)
’’ آمنت باللّٰہ‘‘میں اللہ پر ایمان لایا’’ ربی اللّٰہ‘‘میرا رب اللہ ہے ۔رضیت باللّٰہ ربا ’’میں اللہ کواپنا رب۔وبالاسلام دینا’’اسلام کواپنا دین ۔وبمحمد ﷺ نبیا ورسولا ’’اورمحمدرسول اللہ ﷺکواپنا نبی ورسول مان کر راضی ہوگیا‘‘کہناایک عہدہے،بطورعہد ان الفاظ کا زبان سے کہدینا آسان ہے لیکن تادم زیست اس عہدکو نبھانے اوراسکے تقاضوں کو پوراکرنے کا نام استقامت ہے جو اللہ سبحانہ کے خاص فضل وکرم اوربندوں کے ایمانی وایقانی عزم وحوصلہ پر موقوف ہے۔جس کاصلہ اللہ سبحانہ اپنی شان کے مطابق بندوں کو عطا فرماتے ہیں اس آیت پاک میں جس کا ذکر ہے ’’بے شک وہ جنہوں نے یہ کہا:کہ ہمارا رب اللہ ہے پھروہ اس قول وقرارپرمضبوطی سے قائم رہے ایسے بندوں پرفرشتے اترتے ہیں اوران کورب کا پیام سناتے ہیں کہ نہ تم ڈراورخوف رکھو نہ رنج وغم کرو، تمہیں جنت کی بشارت ہوجس کا تم سے وعدہ کیا جاتاہے،ہم تمہارے دوست اورمددگار ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت کے زندگی میں بھی اورتمہارے لئے اس میں ہر وہ شیٔ مہیا ہے جس کوتمہارے نفس چاہیں گے اوروہ جن کا اللہ سبحانہ نے تم سے وعدہ کیا ہے ،یہ تمہارے لئے بخشش ومغفرت فرمانے والے اوراپنی رحمتیں نچھاورفرمانے والے (اللہ سبحانہ )کی طرف سے بطورمہمانی کے ہے ‘‘( حٰم السجدہ: ۳۰تا ۳۲ )
اللہ سبحانہ پر ایمان لانا اوراس پر استقامت کی عملی جلوہ گری کے نقوش اپنے خالق کوبھولی ہوئی انسانیت کے قلوب پرثبت کرنا’’صبغۃ اللّٰہ‘‘ کا ان پر رنگ چڑھانا ہرایک بندہ مومن پرفرض ہے۔اس عملی فریضہ کوپوراکرتے ہوئے زبان وقلم کی صلاحیتوں سے بندگان خداکے سینوں کو اللہ سبحانہ کی وحدانیت ومعرفت اوراسکی کبریائی کے نورسے معمورکرنے کی مخلصانہ جدوجہدمیں اپنی زندگی کھپانا ،کتاب وسنت کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب وتشویق دلانا اوربوقت ضرورت تادیب کیلئے انذاریعنی اللہ سبحانہ اورآخرت کا خوف دلانا خیر امت کا فریضہ منصبی ہے۔اسلام کا آفاقی پیغام ایک صاف وشفاف چشمہ شیریں کے مانندہے اس سے اپنی پیاس بجھالینااسلئے کافی نہیں ہے چونکہ یہ امت خیر الامم ہے،اس منصب کا حق اس وقت اداہوسکتاہے جب اپنی پیاس بجھانے کے ساتھ ایمان وعرفان کی محرومی سے جوانسانیت روحانی تشنگی کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ جاں بہ لب ہے اسکی روحانی پیاس بجھائی جائے ،ایمان کی شمع فروزاں سے جن کے سینے روشن ہیں وہ رضاء الہی وقرب باری کی منزل رفیع کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ کفروشرک کی تاریکیوں ،ظلم وجور،عصیان وطغیان کی خارداروادیوں میں بھٹکنے والے انسانوں کا ہاتھ تھام کرایمان واسلام کی شاہراہ مستقیم پر لانے اوراعمال صالحہ کی روش مستنیر دکھانے کی سعی بلیغ نہ کرلیں۔ اس عظیم کام کیلئے دل دردمند اورفکرارجمندکی ضرورت ہے،اس جذبہ خیر خواہی کے بغیرایمان کے اعلی مراتب ودرجات تک رسائی آسان نہیں،خیرالرسل سیدنا محمد رسول اللہ ﷺنے دن کی جاں سوز تبلیغی محنتوں ،رات کی شب بیداریوں اورانسانیت کی نجات کیلئے دل سوزدعائوں کے دردمندانہ وفکرمندانہ انہماک سے خیر الامم کومقصدحیات کی راہ دکھائی ہے اورآخرت کی عظیم کامیابی کی سوغات کا تحفہ امت کو عطا فرمایا ہے۔اس عظیم تحفہ میں حالات سازگارہوں کہ غیر سازگار ہر حال میں اخلاص ومحبت کے ساتھ رب سے روٹھے بندوں کواسکی دہلیزتک پہنچانے کی پیہم جدوجہدکرنے، دردوسوزمیں ڈوبی دعائوں اورالتجائوں سے اس عظیم مقصد کی تکمیل میں جٹ جانے کا پیغام ملتاہے۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺنے ارشادوتبلیغ کا جیسا کچھ حق اداکیاہے اس مقام رفیع تک تو کسی کی رسائی ممکن نہیں تبھی تو اللہ سبحانہ نے انسانیت کیلئے آپ کے فرط غم کی انتہاء کا تذکرہ یوں فرمایاہے’’ اے حبیب ﷺ! اگریہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دیں گے‘‘(کہف:۶)اس آیت پاک میں کفارومشرکین کودوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی شدیدتڑپ اوران کے اعراض وگریزکی وجہ روحانی رنج وغم کی انتہائی کیفیات کوسمویا گیاہے۔ایمان کی شمع فروزاں جن سینوں میں روشن ہے اس رنج وغم کا کچھ حصہ اس شمع فروزاں کی لومیں ایسا کچھ اضافہ کرے،اس کی روشنی کچھ ایسی پھیلے کہ باطل کے سارے چراغ گل ہوجائیں اوراسلام کے روشن چراغ کی جگمگاہٹ سارے عالم پرچھاجائے۔ کفروشرک ،ظلم وجور اورفسق وفجور کے گرداب میں پھنسی اوردم توڑتی انسانیت خیرامت کی محنتوں ودردسوزیوں سے کتاب وسنت کے آب حیات کا ایک جرعہ ایسے نوش جان کرلے کہ وہ اسلام کی حیات بخش فضاء میں سانس لے سکے ،گمراہیوں کے دم گھٹتے ماحول سے دامن چھڑاکراسلام کے روح پرورماحول میںراحت وسکون پاسکے،اوران کی پاکیزہ زندگی دوسروں کیلئے نمونہ عمل بنے اوروہ بھی اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کریں،اس طرح مقصد تخلیق کی تکمیل کی وجہ ہماری اور ان کی آخرت سنورجائے ۔