انتخابی مہم کا گرتا ہوا معیار

جب خونِ دل تھا آنکھ سے آنسو رواں نہ تھے
ہم اسقدر تو واقفِ دردِ نہاں نہ تھے

انتخابی مہم کا گرتا ہوا معیار
اترپردیش اسمبلی انتخابات کی مہم پورے زور و شور سے چل رہی ہے ۔ چار مراحل میں پولنگ ہوچکی ہے اور مزید تین مراحل میں راے دہی باقی ہے ۔ اس کیلئے ہر سیاسی جماعت کی جانب سے پوری شدت کے ساتھ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان ساری کوششوں کے دوران اخلاقیات اور اقدار کو پامال کردیا گیا ہے ۔ اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جو دوسروں کو اخلاق اور اقدار کا درس دینے میں آگے آگے رہتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران شخصی حملے عام بات ہوگئی ہے جبکہ انتخابات کا اصول یہ ہے کہ اپنے اپنے ترقیاتی ایجنڈہ اور پروگراموں کی بنیاد پر رائے دہندوں سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جس ریاست میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اس کیلئے ترقیاتی منصوبوں کو پیش کیا جائے ۔ اپنا ایک منشور عوام کے سامنے رکھا جائے اور مستقبل کے عزائم اور منصوبوں کے ساتھ ماضی میں اقتدار اگر رہا ہو تو اس میں کئے گئے کاموں کی تفصیلات کو عوام میں پیش کیا جائے ۔ ایسا کرتے ہوئے عوام سے دوبارہ تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر سیاسی جماعت اور انتخابات میں مقابلہ کرنے والے ہر امیدوارک ا حق ہے لیکن ایسا کرنے کی بجائے صرف ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جملے کسے جا رہے ہیں۔ تنقیدوں کی سطح انتہائی گرگئی ہے ۔ یہ سوچا تک نہیں جا رہا ہے کہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے تعمیر ہونی چاہئے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے انتخاب کے بعد جب اسکولس اور کالجس کے طلبا سے کبھی مخاطب کرتے ہیں تو انہیں اخلاقیات کا درس دینے لگ جاتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے اور اپنے آپ کو سب سے بہتر بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایسے نہیں ہیں ۔ ملک کی پانچ ریاستوںمیں اسمبلی انتخابات کا جو عمل گذشتہ مہینے سے شر وع ہوا تھا اب وہ اختتامی مراحل میں پہونچ رہا ہے ۔ اترپردیش جیسی ملک کی سیاسی اعتبار سے سب سے حساس ریاست میں چار مراحل میں رائے دہی ہوچکی ہے ۔ ایک بڑا حصہ ووٹ دے چکا ہے اور اب مزید تین مراحل میں رائے دہی ہونی ہے ۔
یہاں وزیر اعظم سے لے کر چیف منسٹر تک اور تقریبا سبھی دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین دوسری جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بنانے میں اپنے اخلاق کو فراموش کرچکے ہیں۔ کوئی کسی کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے تو کوئی اپوزیشن کے قائدین کو ممبئی حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں سے تشبیہہ دے رہا ہے ۔ کوئی کسی کو بالواسطہ طور پر گدھے قرار دے رہا ہے تو کوئی کچھ کہہ رہا ہے ۔ یہ سب کچھ انتخابات کا موضوع نہیں ہیں۔ بی جے پی کے مخالفین کو ممبئی حملوںکے مرتکبین سے جوڑنا یہ حد درجہ کی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر ان کے خلاف دہشت گردوں کے خلاف جن دفعات کے تحت کارروائی کی جاتی ہے ویسی ہی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ صرف عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے ۔ جس طرح انتخابات کے بعد ہر جماعت سیاست کو جرائم سے پاک بنانے کی وکالت کرتی ہے اور پھر انتخابات میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں ہی کو ترجیحی بنیادوں پر پارٹی کے ٹکٹ دئے جاتے ہیں اسی طرح انتخابات کے موسم میں سیاسی جماعتیں اور قائدین خود اخلاقیات اور اقدار کو پامال کرتے ہیں اور ان کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور انتخابات کے بعد اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے لگ جاتے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کا دوہرا معیار ہے جو وہ ہر بار انتخابات کے موسم میں آشکار کرجاتے ہیں ۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے پر ایسے ریمارک کر رہے ہیں ۔
تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے ذمہ دار قائدین کو انتخابات کے بعد خود اپنے اور اپنے امیدواروں و دوسرے قائدین کے ریمارکس اور تبصروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنے آپ کو سدھارنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں اخلاقیات اور اقدار کا درس دینے سے قبل انہیں اپنے آپ کو سدھارنے اورا پنے گریبان میں جھانکنے کا فریضہ ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ انتخابات ہر پانچ سال میں ایک بار آتے ہیں اور ہر بار ان قائدین کو اپنے آپ کو منوانے کا موقع فراہم کرتے ہیں لیکن انہیں محض اپنے اقتدار یا ووٹوں کی خاطر دوسروں کیلئے غلط مثال قائم کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ انہیں کسی کو مشورے دینے یا تلقین کرنے سے قبل اپنے آپ کو اس کی مثال بن کر پیش کرنے کی ضرورت ہے اور خود ملک کے رائے دہندوں کو بھی ایسے قائدین کو اپنے ووٹ کے ذریعہ سبق سکھانے کیلئے بھی آگے آنا چاہئے تاکہ آئندہ یہ لوگ بے لگام نہ ہونے پائیں ۔