انتخابی مصارف اور رائے دہندے

چمن پر بجلیاں منڈلا رہی ہیں
کہاں لے جاؤں شاخ آشیانہ
انتخابی مصارف اور رائے دہندے
ہندوستان کے سیاسی افق پر آنے والے چند دنوں میں سیاسی انتخابی مہم کی گرد اڑتے نظر آئے گی۔ اس انتخابی مہم کیلئے سیاسی پارٹیوں نے زبردست تیاری کی ہے۔ لاکھوں روپئے خرچ کئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے کالے دھن کے استعمال پر نظر رکھنے اور رائے دہندوں کو امیدواروں کی جانب سے دی جانے والی رقمی لالچ کو قبول نہ کرنے کی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ اقدام مستحسن ہے۔ پھر بھی شاید کوشش پوری طرح کامیاب نہ ہو کیونکہ کسی نہ کسی طرح معاشرے کا ایک طبقہ ہر صورت خود کو اس بوسیدہ ماحول سے الگ رکھ کر آنے والے حالات کی سنگینی پر نظر رکھے گا تو دسرا گروپ سیاستدانوں کا ساتھ دے کر انتخابی دھاندلیوں کو عام کرنے کوشاں رہے گا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس سال انتخابات کا موسم ملک کے رائے دہندوں کیلئے مہنگا رہے گا۔ ہر سیاسی پارٹی اور ان کا امیدوار اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے بے دریغ رقومات خرچ کرے گا۔ ہندوستانی سیاستدانوں کی دولت اور مصارف کے تعلق سے یہ کہا جارہا ہیکہ تقریباً 5 بلین امریکی ڈالر انتخابات کیلئے خرچ کئے جائیں گے یعنی اس ملک میں جہاں عوام کی اکثریت سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے وہاں کے سیاستداں اپنی حیثیت کیلئے 30,500 کروڑ روپئے خرچ کریں گے۔ ہندوستان کے ان انتخابات کو امریکہ کے صدارتی انتخابات کیلئے ہونے والے مصارف سے زیادہ مہنگے انتخابات قرار دیا جارہا ہے۔ اس مرتبہ بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی کی کامیابی کیلئے 3 گنا زائد مصارف ہونے کا امکان ہے۔ موافق تاجر اور کارپوریٹ گھرانوں کے پسندیدہ امیدوار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لیڈر چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کیلئے ملک کے تمام تاجر و صنعتی گھرانوں نے اپنی تجوریاں کھول دی ہیں تو مابعد انتخابات یہ تاجر اور صنعتکار عوام سے اپنی رقومات کا سود سمیت حساب وصول کریں گے جس کے نتیجہ میں ملک کا عام شہری مزید مہنگائی اور مفلسی کا شکار ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے ایک دیانتدار سرکاری ادارہ کی حیثیت سے عوام الناس میں شعور بیداری مہم شروع کرتے ہوئے سیاستدانوں کے کالے دھن سے چوکنا رہنے اسے قبول نہ کرنے کی ترغیب دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس نیک جذبہ کو ہر شہری کی تائید حاصل ہونی چاہئے۔ بی جے پی نے اپنے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو کامیاب بنانے کیلئے تاجر، صنعتی اور دیگر گھرانوں کے کالے دھن سے استفادہ کرنے کا مبینہ فیصلہ کیا ہے تو کانگریس نے اپنی خاندانی حکمران کو پہلے سے زیادہ شدت سے مسلط کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہ رکھنے کا تہیہ کرلیا ہے ایسے میں الیکشن کمیشن ایک صاف ستھرے ادارہ کے طور پر شفاف و منصفانہ انتخابات کروانا چاہتا ہے تو ہر رائے دہندہ کا فرض ہیکہ وہ الیکشن کمیشن کے پروگراموں اور اموں میں تعاون کریں۔ رائے دہی کے دن لوگوں کے اندر بعض حساس علاقوں میں خوف پایا جاتا ہے اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد خوف کی وجہ سے گھروں میں ڈر کر نہیں بیٹھتی بلکہ نہایت ہی ذمہ داری اور احساس فرض کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق ووٹ سے استفادہ کرنے پولنگ بوتھ پہنچنے میں ضرورت اس بات کی ہیکہ ان غیرجانبدار رائے دہندوں کے ووٹوں کو اچکنے والی طاقتوں سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ اس خصوص میں الیکشن کمیشن کے تشکیل کردہ گروپس ہی پوری تندہی سے اپنا کام انجام دیں تو معاشرہ کو بدعنوان سیاستدانوں سے پاک بنانے میں مدد ملے گی۔ انتخابات میں ہونے والے مصارف اور بیجا اخراجات کو روکنے کیلئے ہمہ رخی کوشش کی جائے تو بلاشبہ مذکورہ بالا رقم یعنی 30,500 کروڑ روپئے سے ملک کے 2014ء کے دوسرے حصہ پر ہونے والے عوامی مصارف کو پورا کیا جاسکتا ہے جس سے کئی فاقہ کش انسانوں کو روٹی ملے گی اور بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی اسکیمات پر عمل آوری آسان ہوگی۔ ساری دنیا میں انتخابی مصارف میں اضافہ اور مابعد انتخابات عوام کی جیب سے ان مصارف کی پابجائی کی پالیسیوں نے معیشت کو کمزور اور عوام کی روزمرہ کی زندگی کو مسائل سے دوچار کردیا ہے۔

اس لئے ضرورت اس بات کی ہیکہ ماہرین معاشیات اور بدعنوانیوں سے پاک سیاستداں انتخابی مصارف کو کم کرنے پر توجہ دیں تو کئی مسائل ازخود حل ہوں گے۔ افسوس اس بات کا ہیکہ جو بزنس گھرانے سیاسی پارٹیوں پر سرمایہ کاری کرتی ہیں وہ سود سمیت بے تحاشہ اپنا منافع حاصل کرنے ملک کے قدرتی وسائل اور عوامی ضروریات کا سودا بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا رائے دہندوں کو الیکشن کمیشن کی بیداری مہم کے مطابق کالے دھن والے امیدواروں سے چوکس رہنا چاہئے۔ رائے دہندوں کو ان کے بدعنوان سیاستدانوں کے بنائے نظام کی طاقت اور ان کے کرشموں سے کرپشن کا تحفظ اور احتساب کے اثرات سے بچے رہنے کی ترکیبوں سے ہوشیار و چوکنا ہونا ہوگا۔