صدورنشین کو پالیسی فیصلوں کا اختیار نہیں،تقاریب پربھی پابندی، الیکشن کمیشن کے عہدیدار متحرک
حیدرآباد۔/6اکٹوبر، ( سیاست نیوز) اسمبلی کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد سے ریاست میں فلاحی اسکیمات پر عمل آوری عملاً ٹھپ ہوچکی ہے۔ محکمہ جات کے عہدیدار اور ملازمین کو جاریہ اسکیمات پر بھی عمل آوری میں دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ضابطہ اخلاق کے نفاذ کا اثر محکمہ اقلیتی بہبود کے اداروں پر بھی دکھائی دے رہا ہے جہاں کسی بھی کام کے سلسلہ میں عہدیداروں کا محض ایک ہی بہانہ ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہے۔ ایک طرف حکومت نے جاریہ مالیاتی سال کا بجٹ کئی اداروں کو جاری نہیں کیا تو دوسری طرف جن اداروں کو بجٹ جاری کیا گیا ہے وہ اس موقف میں نہیں ہیں کہ انہیں اسکیمات کیلئے خرچ کرسکیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد اقلیتی اداروں پر فائز کئے گئے سیاسی تقررات بھی محض برائے نام ہوکر رہ گئے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب اقلیتی اداروں کے صدور نشین کوئی بھی پالیسی فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی نئے فیصلہ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اقلیتی اداروں کی جانب سے سرکاری طور پر تقاریب کا انعقاد عمل میں نہیں لایا جاسکتا اور جاریہ اسکیمات کے استفادہ کنندگان میں رقومات کی اجرائی یا پھر کوئی اور تقریب منعقد نہیں کی جاسکتی۔ سکریٹری اقلیتی بہبود ایم دانا کشور جو حیدرآباد کے ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر بھی ہیں کے مطابق الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے نتیجہ میں سرکاری اداروں کے صدور نشین پر نئے اعلانات کے سلسلہ میں پابندی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل آوری کے حق میں ہے اور الیکشن سے وابستہ تمام عہدیداروں کو اس سلسلہ میں واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ سرکاری اداروں کے صدور نشین ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد برائے نام ہوکر رہ گئے ہیں اور وہ اپنی صدارت میں کوئی ایسا اجلاس منعقد نہیں کرسکتے جس میں نئے فیصلے کئے جاسکیں۔ روزمرہ کے اُمور کی تکمیل کی ذمہ داری عہدیداروں کی ہے اور ادارہ کی کارکردگی میں سیاسی تقررات کے حامل افراد کی مداخلت ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام سرکاری اداروں بشمول اقلیتی اداروں میں بھی ضابطہ اخلاق کا سختی سے نفاذ رہے گا اور یہ پابندی اسمبلی انتخابات کے نتائج کی اجرائی تک برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ادارہ کی جانب سے عوام کے حق میں کسی اعلان کو رائے دہندوں کو راغب کرنے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کو بتکماں تہوار کے موقع پر خواتین میں ساڑیوں کی تقسیم کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس کے علاوہ رعیتو بندھو اسکیم کے تحت کسانوں کو فصلوں کیلئے امدادی رقم کو چیک کے بجائے راست بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ چیکس کی اجرائی یا رقومات کی تقسیم کے سلسلہ میں کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاسکتی۔ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے تلنگانہ وقف بورڈ کو انیس الغرباء کی تعمیر کے سلسلہ میں آر اینڈ بی عہدیداروں کو چیک جاری کرنے سے روک دیا تھا۔ ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے سبب سرکاری اداروں کے صدورنشین کی سرگرمیاں یکایک محدود ہوچکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ادارہ کی کسی فائیل پر فیصلہ سے متعلق دستخط بھی نہیں کرسکتے۔