امیرطبقہ کو سبسیڈی والے گیس کنکشن ترک کرنے وزیر اعظم کا مشورہ

نئی دہلی 27 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کو توانائی میں توانا بنانے کیلئے مؤثر اقدامات کا اشارہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ ہندوستان کو 2022 تک 10 فیصد آئیل درآمدات میں کٹوتی کی جانی چاہئے۔ انہو ںنے امیر طبقہ کو سبسیڈی والے گیس کنکشن ترک کردینے کا مشورہ دیا ۔ پہلی پرجاسنگم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چار سال کے دوران ایک کروڑ خاندانوں کو راست پائپ لائن کے ذریعہ گیس سربراہ کرنے کو یقینی بنایا جائے گا فی الحال 27 لاکھ خاندانوں کو پائپ لائن کے ذریعہ گیس سربراہ کی جارہی ہے ۔ نریندر مودی نے کہا کہ اگر برآمدات میں جو طلب کا 77 فیصد حصہ ہیں کو 2022 تک 10 فیصد کی کٹوتی کی جائے گی ملک کو 2030 تک اس طرح درآمدات میں بتدریج کٹوتی کرنی ہوگی ۔ اس وقت ہندوستان شام تیل کی درآمدات کیلئے سال 2013-14 میں 189,238 کروڑ روپئے خرچ کئے ہیں۔ انہو ںنے یہ بھی کہا کہ پکوان گیس کی مارکٹ کی سطح سے کم والی قیمت کا استعمال کرنے کو ترک کرتے ہوئے 2.8 لاکھ عوام نے اس ملک کے 100 کروڑ روپئے کی سبسیڈی بچاتی ہے ۔ اس رقم کو اسکولوں اور طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا ۔

میں ان متمول افراد سے اپیل کرتا ہوں جو لوگ مارکٹ کی قیمت پر پکوان گیس خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ براہ کرم اگر آپ مارکٹ کی قیمت پر گیس خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو سبسیڈی پر فراہم کی جانے والی گیس کو ترک کردیں‘ جب سے حکومت نے پکوان گیس کیلئے براہ راست منافع منتقلی اسکیم کا آغاز کیا ہے کئی افراد نے سبسیڈی اسکیم کو ترک کردیا۔ مودی نے کہا کہ 12 کروڑ بینک اکاونٹس کو جن دھن اسکیم کے تحت کھولا گیا ہے ۔ اس سہولت کو گیس کی سربراہی پر ملنے والی سبسیڈی کی رقم کو راست ان کے بینکوں میں صارفین تک پہونچائی جائے گی اس اسکیم سے خامیوں کا تدارک کرنے اور رشوت کے خاتمہ کیلئے موثر کارروائی میں مدد ملے گی ۔ رشوت کا مقابلہ کرنے کیلئے اگر ادارہ جاتی میکانزم ‘شفاف میکانزم پالیسی پر مبنی نظام کو رائج کیا جانا ہے تو ہم خامیوں اور لیکجس کو روک سکتے ہیں اور رقمی منتقلی عمل کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاچکا ہے نریندر مودی نے ہندوستانی توانائی کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ اب ملٹی ٹیلنٹس کمپنیاں میں جائیں اور اپنی مشرق وسطی میں توانائی کو ریڈکراس میں اپنی موجودگی کو بڑھائیں ۔ وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں بھی ان کی موجودگی کا احساس دلانا ضروری ہے ۔ہندوستانی کمپنیوں کو شمالی امریکہ اور افریقہ میں بھی مواقع تلاش کرنے ہوں گے ۔