امیدواروں کی فہرست میں مسلمانوں کی مایوس کن نمائندگی

ٹی آر ایس کے مسلم کیڈر میں ناراضگی، پارٹی قائدین سے زیادہ حلیف جماعت پر انحصارکی شکایت

حیدرآباد 17ستمبر (سیاست نیوز )برسر اقتدار ٹی آر ایس پارٹی ہمیشہ خود کو مسلمانوں کا حقیقی ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جب ایوان اسمبلی میں نمائندگی کا موقع آتا ہے تو مسلمانوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات کیلئے پارٹی سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے 119 کے منجملہ 105 حلقوں سے امیدواروں کی فہرست جاری کردی ۔ فہرست میں صرف 2 مسلمان شامل کئے گئے ہیں ، ان میں سے ایک موجودہ بودھن رکن اسمبلی عامر شکیل ہیں جبکہ پرانے شہر کے بہادر پورہ حلقہ سے ایک مسلم قائد کو امیدوار بنایا گیا۔ فہرست کی اجرائی کے بعد پارٹی اقلیتی قائدین میں مایوسی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی اقلیتی سیل کی جانب سے مسلمانوں کو ٹکٹوں کی تقسیم میں مناسب نمائندگی کے سلسلہ میں مختلف گوشوں سے دباؤ بنایا جارہا ہے لیکن اقلیتی قائدین میں اتنی جرات نہیں کہ وہ کے سی آر سے مسلمانوں سے ناانصافی کا تذکرہ کرسکیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف اضلاع میں اقلیتی قائدین کو تیقن دیا گیا تھا کہ انہیں زائد اقلیتی آبادی والے حلقوں سے نمائندگی دی جائیگی لیکن 105 امیدواروں کے اعلان نے مسلم قائدین و کیڈر کو مایوس کردیا ہے۔ پارٹی کے ایک اقلیتی قائد نے ریمارک کیا کہ کے سی آر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے۔ کم از کم انہیں ٹکٹوں کی تقسیم میں مناسب نمائندگی دینی چاہئے تھی ۔ اب جبکہ صرف 14 حلقوں کے امیدواروں کا اعلان باقی ہے، اقلیتی قائدین کو کوئی امید نہیں کہ ان میں مسلم قائدین کو شامل کیا جائیگا ۔ پارٹی کا مسلم کیڈر اس بات پر ناراض ہے کہ کے سی آر نے مسلمانوں کی نمائندگی کے سلسلہ میں اپنی حلیف شہر کی مقامی جماعت پر مکمل انحصار کرلیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مقامی جماعت کے 7 ارکان اسمبلی کو اپنے رکن اسمبلی کے طور پر شمار کرلیا ہے۔ لہذا وہ پارٹی کے مسلم قائدین کو اسمبلی کیلئے منتخب کرنا نہیں چاہتے۔ ریاست میں کئی ایسے حلقے ہیں جہاں مسلم امیدوار بآسانی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ 105 امیدواروں کی فہرست میں کے سی آر نے بعض موجودہ ایم ایل ایز کو ٹکٹ سے محروم کرتے ہوئے دوسروں کو امیدوار بنایا۔ کے سی آر اگر چاہتے تو مسلمانوں کو کم از کم 5 تا 8 اسمبلی حلقوں سے امیدوار بناسکتے تھے۔ جب کبھی مسلمان کو ٹکٹ دینے کا معاملہ آتا ہے تو کامیابی کی ضمانت کو بہانہ بناکر انہیں ٹکٹ سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ٹی آر ایس 12 فیصد مسلم تحفظات پر عدم عمل آوری کے کفارہ کے طور پر کم از کم 5 مسلم امیدواروں کو اسمبلی کیلئے منتخب کرے۔ مسلم قائدین کی ناراضگی اس بات پر بھی ہے کہ اقلیتوں کے مسائل کے سلسلہ میں کے سی آر نے گزشتہ چار برسوں کے دوران پارٹی قائدین سے زیادہ حلیف جماعت سے مشاورت کی۔ پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں میں بتایا جاتاہے کہ حلیف جماعت کے مشورہ پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا اور باقی 14 نشستوں میں بھی مسلم نمائندگی کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں ۔ پارٹی اقلیتی قائدین کا ماننا ہے کہ اسمبلی میں موثر نمائندگی کے بغیر ٹی آر ایس کس طرح مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ کونسل میں فی الوقت ٹی آر ایس کے 4 مسلم ارکان ہیں، جن میں 2 ارکان کی میعاد آئندہ سال اپریل میں ختم ہوجائے گی۔ کونسل سے زیادہ اسمبلی میں نمائندگی کی اہمیت ہوتی ہے لیکن کے سی آر نے ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو مایوس کردیا۔