امریکہ کو اسلامی دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سخت فیصلے کرنے والے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ہی ملک کے دہشت گردوں سے امریکی شہریوں کا تحفظ کرنے میں برُی طرح ناکام ہوئے ہیں ۔ اتوار کی شب امریکہ کے نہایت ہی فیشن ایبل شہر لاس ویگاس میں ایک موسیقی ریز پروگرام میں شریک ہزاروں عوام کو خود کار رائفلس سے نشانہ بنانے والے 64 سالہ رئیل اسٹیٹ تاجر اسٹیفن پڈوک کو دہشت گرد قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے امریکی پولیس اور حکومت نے ساری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کے ملک میں ایسا کوئی دہشت گرد واقعہ پیش نہیں آیا ۔ حالانکہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی مگر امریکہ انٹلی جنس کے بشمول تمام لا انفورسمنٹ اداروں نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ۔ امریکی گن کلچر دن بہ دن خود امریکیوں کی جان کا دشمن بن چکا ہے ۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود امریکہ کے حکمران اور سیاست داں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس گن کلچر کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ اس قتل عام کو جدید امریکہ کی تاریخ کا بدترین المیہ قرار دیا گیا ۔ 59 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوئے ۔ صدر امریکہ کو اس واقعہ کے ذمہ دار امریکی شہری کو دہشت گرد قرار دینے سے تامل ہورہا ہے ۔ لاس ویگاس کی فائرنگ نے اس سے قبل اور لینڈو نائٹ کلب میں ہوئی فائرنگ اور اموات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج کا امریکہ نہایت ہی خطرناک دور میں داخل ہوچکا ہے ۔ امریکہ کی موجودہ بناوٹ نے ساری دنیا کو اسلامی دہشت گردی سے خوف زدہ کیا ہے اور 7 مسلم ممالک کے باشندوں پر سفری پابندی عائد کر کے خود کو امریکہ کا نہایت ہی عقل مند اور خیر خواہ صدر ثابت کرنے کی کوشش کی مگر خود اس کے شہریوں نے اپنے ہی لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا عمل تیز کردیا ۔ اس طرح کے سلسلہ وار واقعات کے باوجود امریکی نظم و نسق اپنے ملک میں پروان چڑھتی امریکی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کا شدید جانی نقصان کررہی ہے ۔ ہر سانحہ کے بعد حکمراں اور اپوزیشن قائدین تعزیت پیش کرتے ہیں مرنے والوں کے حق میں دعا کرتے ہیں ۔ لیکن خطرناک گن کلچر کو ختم کرنے کے لیے غور و فکر نہیں کرتے ۔ امریکہ کو تھنک ٹینکس کی سرزمین کہنے والے اپنے ملک کو گن کلچر سے محفوظ رکھنے کی فکر صحیح سے مفلوج ہیں ۔ امریکہ کی سابق یا موجودہ قیادت کی نظر صرف اسلامی دہشت گردی اور مسلمانوں پر ہی ہے ۔ جب کہ ان کا ملک پے درپے قدرتی آفات اور انسانی غلطیوں کی زد میں ہے ۔ حالیہ تباہ کن طوفان سے متاثرہ امریکی ریاستوں اور وہاں کے عوام کے مسائل دور کرنے میں ناکام ٹرمپ نظم و نسق کو گن کلچر نے شدید دباؤ سے دوچار کردیا ہے ۔ وہ امریکہ جس نے چاند پر قدم رکھے تھے ۔ آج طوفان اور سیلابوں کے پانی میں محصور ہو کر خون کی ندیاں بہانے والے گن کلچر میں پھنس گیا ہے ۔ امریکہ میں قانون سازوں نے صحت عامہ کے لیے موثر پالیسیاں بنانے کے بجائے موافق گن کلچر قوانین کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ پولیس نے لاس ویگاس کے حملہ آور کے قبضہ سے 17 گنس برآمد کیے ۔ ہوٹل کی 32 ویں منزل پر اس نے کمرہ حاصل کر کے وزنی سوٹ کیس کے ساتھ پہونچا تو سیکوریٹی عملہ نے اس کی جانچ پڑتال نہیں کی ۔ داخلی طور پر سیکوریٹی کوتاہیوں کا شکار امریکی نظم و نسق دوسرے ملکوں کی سیکوریٹی اور دیگر ملکوں کے شہریوں پر کڑی نظر رکھنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ صدر ٹرمپ اب پہلے سے زیادہ مسائل کا شکار ہوں گے ۔ اسلامی دہشت گردی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے والے ٹرمپ کو لاس ویگاس قتل عام جیسے واقعات کو غلط زاوئیے سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔ امریکہ کے اندر دہشت گرد بننے والے امریکی شہریوں کو ایک دہشت گرد تسلیم کرنے سے انکار اور اسے امریکی قانون کے تحت دہشت گردی کی سزا دینے سے گریز کرنا بھیانک غلطی ہوگی اور اس غلطی کا خمیازہ آئے دن امریکہ کے بے قصور عوام کو بھگتنا پڑے گا ۔ امریکہ 2007 سے بڑے پیمانے پر فائرنگ اور قتل عام کا شکار بنا ہوا ہے ۔ ورجینا میں ہوئے فائرنگ واقعہ میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سارا امریکہ صدمہ سے دوچار ہوا تھا ۔ اس سانحہ کے بعد کئی سانحہ ہوتے رہے مگر گن کلچر کو ختم کرنے کے لیے امریکی قانون سازوں میں حوصلہ کا فقدان ہی رہا ۔ امریکہ ساری دنیا میں پولیس کا رول ادا کرتا ہے مگر اپنی ہی سرزمین پر خود کار اسلحہ کو روکنے میں ناکام ہے ۔۔