امریکہ کے عیسائیوں سے بات چیت کرنے سے قبل عیسائی مذہب کے بارے میں چند بنیادی اُمور کو جاننا ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے اور بنی اسرائیل ( یہود) اس وقت موحد تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے پیروکار تھے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت یہودی مذہب میں نقص کی تلافی اور تدارک کے لئے ہوئی تھی ، آپ کوئی نیا دین یا کوئی نئی شریعت لیکر نہیں آئے تھے بلکہ شریعت موسوی کی تکمیل اور نقائص کے ازالہ کے لئے بھیجے گئے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں جامعیت اور شمولیت نہیں ہے بلکہ انہی حصوں پر زور ہے جس کی اصلاح کی یہودی مذہب میں ضرورت تھی ۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انہی جزوی تعلیمات کو مستقل شریعت کا درجہ دیدیا اور ایک نئے دین کی اختراع کرلی۔ جزوی بنیاد پر مستقل دین کی تعمیر کادعویٰ فرسودہ تاویلات اور مفروضہ توھمات کا متقاضی تھا یہی وجہ ہے کہ آج تک عیسائی اپنے "Doctrine” کی تشریح میں حیران و سرگرداں ہیں، خود گمراہ ہوگئے اور دسروں کو گمراہ کئے ۔ امریکہ ، عیسائی برملا اعتراف کرتے ہیں کہ عیسائی تاحال اپنے عقائد کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وہ تاقیامت اپنے عقائد کی تفہیم و توضیح کے لئے جدوجہد کرتے رہیںگے ۔
اناجیل کے سرسری مطالعہ سے اس کی ایک وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں خدائے ذوالجلال کی وحدانیت ، شان الوہیت ، شان صمدیت ، صفات جلال و جمال ، اسماء حسنیٰ ، افعال الٰہیہ ، اختیارات ذاتیہ ، تصرفات مطلقہ ، ارادت کاملہ ، حساب ، کتاب ، حشر ، نشر ، جزا و سزا، جنت و دوزخ ، احوالِ قیامت کی تفصیلات پائی نہیں جاتی حتی کہ کفر و شرک کے باعث تشفی بخش توضیحات نہیں ملتیں۔ اس کے برعکس نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی بعثتِ مبارکہ مکہ مکرمہ میں ہوئی جوکہ کفر و شرک کا مرکز تھا ادیان سماویہ سے لاتعلق تھا ۔ بناء بریں آپ ﷺ کی تعلیمات میں جامعیت اور شمولیت پائی جاتی ہے ۔
آپ ﷺ کی تعلیمات کے دو بنیادی عناصر ہیں (۱) عقیدۂ توحید (۲) تصور آخرت ۔ انہی دو عناصر پر تمام ادیان سماویہ کا مدار ہے ۔ واضح باد کہ عقیدۂ توحید اور تصور آخرت کا واضح ، جامع ، مفصل اور مکمل نظریہ صرف اور صرف دینِ اسلام یعنی نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے ۔
میں نے غیرت و حمیت اور عصبیت و نفرت سے بالاتر ہوکر کھلے دل سے امریکہ کے عیسائی اسکالرس سے ان کے عقیدۂ توحید کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کی ہے ، یہ وہ اسکالرس ہیںجن کی نظر نہ صرف عیسائی مذہب کے اصول و فروع پر ہے بلکہ وہ تمام ادیانِ سماویہ بشمول اسلام پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ علاوہ ازیں وہ عرصہ دراز اسلامی ممالک میں گزارچکے ہیں ۔ اس کے باوجود ان کے عقیدۂ توحید کے معیار کو جاننے کے بعد یہ یقین مجھے ہوگیا سورۂ فاتحہ کے آخری جز ’’ولاالضالین‘‘ سے جمہور مفسرین کی تفاسیر کے مطابق جن گمراہ لوگوں کے راستے سے محفوظ رہنے کی ایک مسلمان کو دعاء کا حکم ہے ان گمراہ لوگوں سے فی الواقعی عیسائی ہی مراد ہیں جوکہ خدا وحدہٗ کی توحید کے دعویدار ہیں لیکن گمراہی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ قضاء و قدر کو سمجھنے سے قاصر ہیں، خیر و شر اچھی اور بری تقدیر کو اﷲ کی طرف سے ماننے تیار نہیں ۔ خیر کو اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مانتے ہیں اور شر کو شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس کو خدا کے بالمقابل ایک متوازی قوت باور کرتے ہیں ۔ عقیدۂ توحید میں ان کے غیرمعقول نظریات کو محسوس کرنے کے بعد اہل ایمان کادل نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں جذبات تشکر سے لبریز ہوجاتا ہے اور بے ساختہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے ارشاد سے بے پناہ کیف و سرور نصیب ہوتا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : بے شک اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ایک برگزیدہ رسول کو مبعوث فرمایا جو ان پر ہماری آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ وہ اس سے قبل کھلی گمراہی میں تھے ۔ ( سورۂ آل عمران)
تقریباً ایک سال قبل (St.Fransic Episcople) چرچ کی پادری خاتون Rev.Marcia Merae ایک پروگرام کے سلسلہ میں مجھ سے ملاقات کے لئے آئی ۔ شاید امریکہ میں پہلی مرتبہ وہ کسی اسلامک سنٹر کو آئی تھی ، اس کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے کہ مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں کسی خاتون کو آنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ؟ اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہمت جٹاکر اپنی ایک خاتون ساتھی کے ساتھ آئی تھی ۔ اس کی توقعات کے برعکس نہایت خوشدلی اور خندہ پیشانی سے اس کا استقبال ہوا ۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے وہ مجھ سے ملاقات کے لئے آتی رہی ، ہماری شخصی ملاقاتوں سے اس کے دل میں چھپے خوف و ہراس اور شکوک و شبہابت کے بادل دھیرے دھیرے چھٹتے رہے اور ہمارے درمیان ایک اعتماد کی فضا قائم ہوئی ۔ ایک عرصہ سے مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جس کے توسط سے مجھے مقامی گرجہ گھروں میں جانے اور ان سے بات چیت کاموقعہ ہاتھ آئے ۔ بہت طویل انتظار کے بعد اس خاتون سے میری ملاقات ہوئی ۔ وہ خاتون ستر سال سے متجاوز ضرور ہے تاہم آج بھی سماجی سرگرمیوں میں بہت محترک ہے ۔ باہمی مشاورت سے ہم نے پہلے مرحلے میں چھ موضوعات پر ہر ہفتہ کسی چرچ میں پروگرام منعقد کرنا طئے کیا جس میں ہم نے اتفاق کیاکہ (۱) حضرت آدم و حضرت حوا علیھما السلام (۲)حضرت نوح علیہ السلام(۳) حضرت ابراھیم علیہ السلام (۴)حضرت موسیٰ علیہ السلام (۵) حضرت داؤد و حضرت سلیمان علیھما السلام(۶) حضرت بی بی مریم اور حضرت عیسیٰ علیھما السلام پر بائبل اور قرآن کی روشنی میں گفتگو کی جائیگی ۔
پہلی مرتبہ مقامی سطح پر مسلمان اور عیسائی دوستانہ ماحول میں مذہبی موضوعات پر گفتگو کرنے کیلئے جمع ہوئے ۔ عیسائی شرکاء میں بیشتر وہ افراد تھے جن کو پہلی دفعہ کسی مسلمان سے دوبدو گفتگو کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کاموقعہ ملا ۔ وہ اسلام کی گہرائی اور جامعیت سے حد درجہ متاثر ہوئے۔ اس سے بڑھ کر وہ مختلف ممالک کے مسلمانوں سے ملکر اور انکے اخلاق اور طرز سلوک کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ اور جب انھوں نے متعلقہ موضوعات پر مسلمانوں کو نہایت پروقار ، پراعتماد اور پراطمینان حصہ لیتے ہوئے دیکھا تو ان کی تعجب اور حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور ان کو محسوس ہوا کہ مسلمان اپنے دین سے کس حد تک قریب ہیں۔
میڈیا نے اسلام اور مسلمان کی شبیہ کو اس درجہ بگاڑ دیا ہے کہ مغرب کے باشندے اسلام ، مسلمانوں اور اسلامک سنٹر کے نام سے خوف و دہشت کے شکار ہیں ۔ ایسے ماحول میں ان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا اپنے شائستہ طرز و سلوک سے ان کو متاثر کرنا اور خوش اسلوبی سے اسلام کے حقیقی پیغام کو ان تک پہنچادینا ہی قرین مصلحت ہے ۔ بناء بریں میں نے عیسائی عقائد کو کاؤنٹر کرنے یابائیبل کو تحریف و تبدیل سے غیرمحفوظ قرار دینے کی کبھی کوشش نہیں کی ،بلکہ ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ہماری قربت سے اسلام اور مسلمان سے متعلق ان کے دلوں پر جو گرد و غبار ہے وہ صاف ہوجائے تاکہ وہ خود اسلام سے متعلق خلوص نیت اور سمجھنے کے ارادے سے مطالعہ شروع کریں ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ضمن میں یہ ایک ادنی سی کوشش تھی اﷲ تعالیٰ کی ذات سے قوی اُمید ہے کہ اس راہ میں مزید اقدامات کرنے کی توفیق عطا ہوگی ۔