’’امریکہ کی معاشی خود سپردگی‘‘کے دن اب نہیں رہے

= دولت اسلامیہ کا مکمل صفایا ہماری اولین ترجیح
= عوام ڈیموکریٹس اور ری پبلکنس کے درمیان اختلافات پر توجہ نہ دیں
= صدر ٹرمپ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب سے کئی ڈیموکریٹس اور ری پبلکنس غیر حاضر

واشنگٹن۔31 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے آج اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران امریکی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ڈیموکریٹس اور ری بپلکنس کے درمیان منقسم ہوکر نہ رہ جائیں۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب روایتی طور پر سال میں ایک بار منعقد کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے صرف دس روز قبل ہی اپنی صدارتی میعاد کے ایک سال مکمل کئے ہیں لہٰذا انہیں پہلی بار کانگریس کے ایک مشترکہ سیشن سے خطاب کا موقع ملا جہاں انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ امریکی عوام کو چاہئے کہ وہ سیاسی قائدین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات پر زائد توجہ نہ دیں بلکہ انہیں مشترکہ طور پر قوم کے قائدین سے تعبیر کریں کیوں کہ ہمارا انتخاب ہی اس لیے ہوا ہے کہ ہم ملک اور عوام کی اتحاد کو برقرار رکھ سکیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جہاں ٹرمپ قائدین کے درمیان اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کی بات کررہے تھے وہیں تقریباً ایک درجن ڈیموکریٹک قانون ساز بشمول ہندوستانی نژاد امریکی پرمیلا جی پال نے شرکت نہیں کی جبکہ دیگر ہندوستانی نژاد امریکی قانون ساز ڈاکٹر امی بیرا۔ روکھنہ اور راج کرشنا مورتی نے ٹرمپ کے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں شرکت کی جبکہ کیلیفورنیا کی افریقی نژاد ہندوستانی سینیٹر کملابیریس بھی شرکت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تقریباً ایک درجن ری پبلکن قانون سازوں نے خطاب کے آغاز سے کئی گھنٹوں قبل ہی ہال میں موجود شہ نشین کے قریب کی نشستیں سنبھال لی تھیں تاکہ وہ صدر ٹرمپ سے مصافحہ کرسکیں جبکہ شرکاء کی کثیر تعداد میں گزشتہ سال کنساس میں ہلاک کئے گئے حیدرآبادی انجینئر سرینواس کوچی بھوتلاکی اہلیہ سنینا ڈومالا بھی شامل تھیں۔ انہیں ری پبلکن کانگریس مین کیوین یوڈر نے بطور مہمان شرکت کرنے کی دعوت دی تھی۔ دیگر معززین میں نائب صدر مائیک پنس، ٹرمپ کابینہ کے ارکان، فوج کے اعلی عہدیدار اور سپریم کورٹ کے ججس بھی موجود تھے۔ جس وقت خاتون اول میلانیا ٹرمپ ہال میں داخل ہوئیں وہاں موجود شرکاء نے زبردست تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے صدارت کا حلف لیتے وقت یہ عزم کیا تھا کہ وہ اندرون ایک سال دولت اسلامیہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اتحادی فوج نے عراق اور شام کے جن علاقوں پر دولت اسلامیہ کا قبصہ تھا وہاں سے انہیں صد فیصد نکال باہر کیا ہے تاہم اب بھی ہمیں بہت سے کام پورے کرنے ہیں اور ہم اپنی کارروائی اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک دولت اسلامیہ کا مکمل طور پر صفایا نہ ہوجائے۔ انہوں نے ایک اور اہم بات کہتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے معاشی خود سپردگی کے دن اب نہیں رہے اور اب امریکہ ایسے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو دیانتدارانہ اور شفاف تجارت میں یقین رکھتے ہیں اور اپنے وعدوں کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت تجارتی طورپر کئے گئے نامناسب اور غیر منفعت بخش معاہدوں کو ختم کرتے ہوئے نئے معاہدوں کے لیے بات چیت کرے گی تاکہ امریکی ورکرس کا تحفظ کیا جاسکے۔ تجارتی معاہدہ ایسا ہونا چاہئے کہ ہمیں بھی (امریکہ) اپنے شراکت دار سے وہی پذیرائی حاصل ہو جیسی ہم اس کی پذیرائی کررہے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد ہم نے 2.4 ملین نئے روزگار پیدا کئے جن میں صرف مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں دو لاکھ نئی ملازمتیں بھی شامل ہیں۔ کئی برسوں تک تنخواہوں کے بحران کے بعد اب ہم ایک ایسا دور بھی دیکھ رہے ہیں جہاں تنخواہوں کی شرح میں معقول اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کو بے روزگاری نے ایسا گھیرا تھا جس نے گزشتہ 45 سالوں کا بھی ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا کہ چھوٹی تجارتوں کو بھی ٹیکس کی زبردست کٹوتی دی گئی ہے اور اب ان کی آمدنی میں سے صرف 20 فیصد بطور ٹیکس منہا کئے جارہے ہیں۔ چار افراد پر مشتمل کوئی خاندان اگر 75000 س کمارہا ہے تو ان کے ٹیکس بل میں بھی 2000 ڈالرس تک کمی کی گئی ہے جو سابق ٹیکس بل کے مقابلے تقریباً نصف ہے لہٰذا امریکن ڈریم کو شرمندہ تعبیر کرنے کا وقت بھی قریب آپہنچا ہے۔