کابل۔یکم جون ( سیاست ڈاٹ کام ) گوانتاناموبے قید خانے سے 5 سینئر طالبان قیدیوں کی رہائی اور اس کے بدلے امریکی فوجی بوبرگدہل بوڈس کی رہائی امن مذاکرات کے احیاء کیلئے ایک اچھی علامت ہے ۔ افغانستان کی اعلیٰ سطحی امن کونسل کے ایک سینئر رکن نے کہا کہ طالبان کی قیدیوں کی رہائی پر ’’ عظیم مسرت‘‘ کے باوجود عسکریت پسند گروپ کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ قیدیوں کا یہ تبادلہ ’’غیرسیاسی‘‘ ہے ۔ پانچ قیدیوں کے نام محمد فضل ‘ نوراللہ نوری ‘ محمد نبی ‘ خیراللہ خیرخواہ اور عبدالحق واثق ہیں ۔ یہ تمام بارسوخ سابق عہدیدار ہیں جو طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے ۔ بعد ازاں امریکہ کے افغانستان کے حملہ کے بعد طالبان کی حکومت اقتدار سے بیدخل کردی گئی تھی ۔ تمام قیدیوں کا باہمی تبادلہ افغانستان کے مشرقی صوبہ پکیکا میں عمل میں آیا ۔
امریکی فوجی جون 2009ء سے امریکی فوجی اڈہ سے لاپتہ تھا ۔ طالبان کی قید میں وہ واحد امریکی فوجی تھا ۔ امن کونسل کے رکن اسمعیل قاسم یار نے کہا کہ اُن کے خیال میں یہ تمام فریقین کی اعتماد کی بحالی کیلئے اور عنقریب امن مذاکرات کی بحالی کیلئے خیرسگالی اشارہ ہے ۔ خاص طور پر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت افغانستان امن مذاکرات کی پابند ہے ۔ ہم پُرامید ہے کہ طالبان کے سینئر قائدین کی رہائی سے امن کارروائی میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت افغانستان اور امن کونسل طویل عرصہ سے بات چیت سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔ قومی سلامتی کونسل افغانستان کے ایک رکن نے گونتاناموبے کا دورہ کیا تھا اور 10ماہ قبل سینئر طالبان قائدین کی رہائی کے امکانات کا جائزہ لیا تھا ۔
طالبان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پانچ طالبان قیدیوں کی رہائی حکومت قطر کی مدد سے ممکن ہوسکی ہے اور وہ اپنے خاندانوں سے دوبارہ مل سکے ہیں ۔ اس اقدام سے پوری افغان قوم بیحد خوشی محسوس کررہی ہے ۔ خاص طور پر امارات اسلامیہ کے مجاہدین بہت خوش ہیں ۔ بعد ازاں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ قیدیوں کے باہمی تبادلہ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیئے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ کوئی سیاسی کارروائی نہیں ہے اور نہ امن مذاکرات کیلئے کی گئی ہے ۔ طالبان قیادت حکومت افغانستان کے ساتھ بات چیت سے برسرعام انکار کرچکی ہے لیکن اعتدال پسند عناصر نے قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے بات چیت میں حصہ لیا تھا ۔