اللہ رے خاک پاک مدینے کی آبرو

محمد رحیم الدین انصاری

مدینہ منورہ، جسے زمانۂ جاہلیت میں یثرب کے نام سے جانا جاتا تھا، حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدومِ میمنت لزوم کے بعد اسے مدینۃ النبی، مدینۃ الرسول اور مدینہ طیبہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ ناز بنا، سلطان کائنات کا دارالسلطنت قرار پایا، امام الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گاہ خاص ثابت ہوا، جہاں ہر عاشق رسول کی آنکھیں ادب سے جھک جاتی ہیں، عقیدت کی پیشانی خم ہو جاتی ہے اور احترام کا سر فرشِ راہ بن جاتا ہے۔

یہی وہ شہر ہے، جہاں ہزاروں بار سید الملائکہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام اپنی جبین عقیدت جھکائے دست بستہ حاضر ہوا کرتے تھے اور جہاں فرشتوں کے قافلے آج بھی حاضر ہوا کرتے ہیں۔ اللہ کے کیسے کیسے محبوب بندوں نے یہاں اپنے ماتھے ٹیکے اور اس کی گلیوں میں اولیاء اللہ نے فرط ادب میں مدتوں جوتے نہیں پہنے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ گنبد خضراء اور تربتِ انور کی یہ پاکیزہ سرزمین اپنے میں جو امانت و سعادت رکھتی ہے، اس کے باعث وہ افضل البلاد اور اجمل الارض ہے۔ اس شہر کو تقدس آپﷺ کی ہجرت گاہ اور زندگی کے آخری ایام وہاں گزارنے اور پھر وصال کے بعد آسودۂ خواب ہونے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یثرب (مدینہ) کی آب و ہوا انسانی صحت کے موافق نہیں تھی، وبائی امراض والی بستی کے نام سے لوگ اسے یاد کرتے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس کی طرف ہجرت فرمائی تو مشرکین نے کہا تھا کہ ’’وہاں کی آب و ہوا ان سب کو راس نہیں آئے گی اور اس سے نڈھال ہوکر ہم سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھیں گے‘‘۔ چنانچہ وہاں پہنچنے پر اکثر صحابۂ کرام بیمار پڑنے لگے، بخار اور دیگر وبائی امراض کے شکار ہوئے۔ آپﷺ نے یہ صورت حال دیکھ کر دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو مدینہ کو ہمارا ایسا محبوب بنادے، جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرمادے، اس کے صاع و مد (پیمانہ) میں برکت عطا فرما‘‘۔ مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

٭ آپﷺ کو مدینہ منورہ بے حد محبوب تھا۔ جب بھی سفر سے واپس آتے تو چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوتے۔ اپنی چادر کو بازو سے ہٹادیتے اور چہرۂ مبارک سے گرد و غبار صاف نہیں فرماتے، بلکہ ارشاد فرماتے کہ ’’مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘ اور ایک حدیث میں ہے کہ ’’مدینہ کی مٹی میں جذام سے شفا ہے‘‘۔
٭ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کو شرک کی نجاست سے پاک فرمایا ہے‘‘۔
٭ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ’’شیطان مدینہ میں اپنی پرستش اور پوجا ہونے سے ناامید ہو گیا ہے‘‘۔
٭ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میری شفاعت سے مشرف ہونے والے مدینہ والے ہوں گے، پھر مکہ والے، اس کے بعد طائف والے‘‘۔ آپﷺ نے مدینہ منورہ میں اپنی رحلت کی دعا فرمائی، اسی طرح صحابۂ کرام اور تابعین نے بھی مدینہ میں اپنی موت کی دعا کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’میری قبر کے لئے مدینہ کے سوا پوری زمین پر کوئی دوسری جگہ پسند نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی شہادت اور مدینہ میں موت کے لئے دعا کرتے تھے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے حج فرض ادا کرنے کے بعد پھر حج نہیں کیا اور مدینہ منورہ سے باہر نہیں نکلے، اس خوف سے کہیں مدینہ سے باہر کسی اور جگہ موت نہ آجائے۔ آخر دم تک آپ مدینہ میں رہے اور وہیں مدفون ہوئے۔
٭ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’مدینہ گناہوں کی نجاست سے آدمیوں کو اس طرح پاک کردیتا ہے، جیسا کہ بھٹی لوہے سے میل کو دُور کرتی ہے‘‘۔
٭ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص میرے پڑوسیوں کو (اہل مدینہ کو) احترام کی نگاہ سے دیکھے گا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا اور جو میرے پڑوسیوں کی بے حرمتی کرے گا تو اس کو طینہ خبال (دوزخ کے پیپ و لہو سے بھرا حوض) سے پلایا جائے گا‘‘۔

٭ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’مدینہ میری ہجرت کی جگہ ہے، میری آخری آرامگاہ ہے اور قیامت کے دن ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ میرے اُٹھنے کی جگہ ہے‘‘۔
٭ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے گا، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا‘‘۔
٭ آپﷺ نے فرمایا ’’جس سے ہوسکے مدینہ میں مرے تو وہ مدینہ ہی میں مرے، کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا‘‘۔