٭ دین کی کامیابی عقل کو تباہ کرکے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں رکھی ہے۔
٭ اولاد پر اِن {والدین} کی حق شناسی اور تعظیم فرض کی گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے وجود کے باعث ہوئے۔
٭ عاشقان جمال نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ اس آرزو میں رہتے ہیں کہ دولت ِ دیدار سے مشرف ہواکریں اور فی الواقع اس کے آثار و برکات بھی نمایاں ہوتے ہیں۔
٭ یہ ان حضرات {صحابہ} کی خوش اعتقادی کا اثر تھا کہ اپنے نبی ﷺکو اپنی کامیابیوں میں وسیلہ بناتے اور مواقع مہلکہ میں باعث نجات سمجھتے تھے اب ایسے مستند وسیلہ کو کوئی کھو بیٹھے تو وہ قسمت کی بات ہے۔
٭ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے روبرو اِس عالم کے واقعات اورحالات برابر پیش نظر ہیں اور قرب و بُعد یکساں ہے۔
٭ اہل اسلام میں وہی لوگ بڑے درجے کے سمجھے جاتے ہیں جن کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کمال درجہ کی محبت ہوتی ہے۔
٭ تقدیر الٰہی میں یہ بات ٹھرچکی تھی کہ خلافت، نبوت کے تیس سال رہے گی اس کے بعد سلطنت قائم ہوجائے گی۔
٭ خدا ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے کہ اچھوں کے لباس میں آکر مکر پھیلاتے ہیں اور مسلمانوں کے دین و دنیا کو غارت کرتے ہیں۔
٭ ہمیشہ یاد الٰہی میں رہنا صوفیہ کا فرض ِمنصبی ہے۔ {مقاصدالاسلام }
٭ حدیث کو بلاوجہ رد کردینا یا اس سے انکار کرنا سوا، اس کے نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دشمن بنالینا ہے۔ عیاذاباﷲ۔
٭ کل اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ مرتکب کبیرہ قطعی دوزخی۔ حق تعالیٰ اگر چاہے معاف کردے۔ اگر دوزخ میں داخل بھی ہوگیا تو بعد شفاعت دوزخ سے نکلے گا۔ {الکلام المرفوع}
(مرسل: عبدالودودسیدسُدیس ھاشمی)