اقلیتی اسکیمات پر عمل آوری میں مبینہ بے قاعدگیاں

بجٹ کے درست استعمال کو یقینی بنانے کی ہدایت ، حکومت نے رپورٹ طلب کی
حیدرآباد۔یکم ستمبر، ( سیاست نیوز) اقلیتوں کی بہبود کیلئے حکومت تو بجٹ جاری کررہی ہے لیکن اگر اقلیتوں کی بھلائی سے متعلق اسکیمات میں بے قاعدگیاں ہوں تو اس میں حکومت کا کیا قصور۔ تشکیل تلنگانہ کے بعد ٹی آر ایس حکومت نے نہ صرف اقلیتی بہبود کے بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ کئی نئی اسکیمات کا آغازکیا۔ اقلیتوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی سے متعلق سابقہ اسکیمات کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن حالیہ عرصہ میں اسکیمات پر عمل آوری میں مبینہ بے قاعدگیوں کی شکایات ملی ہیں۔ حکومت نے ان شکایات کا سختی سے نوٹ لیتے ہوئے اقلیتی فینانس کارپوریشن کی جانب سے عمل کی جارہی بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی فراہمی کی اسکیم کے بارے میں رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکریٹری انچارج اقلیتی بہبود جی ڈی ارونا اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود محمد جلال الدین اکبر نے بے قاعدگیوں کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اقلیتی بہبود کے بجٹ کے صحیح استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی فراہمی اسکیم میں بے قاعدگی کی شکایت اگرچہ طویل عرصہ سے کی جارہی تھی لیکن اس کا عہدیداروں اور عوامی نمائندوں کے سامنے انکشاف اس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں نیشنل اکیڈیمی آف کنسٹرکشن کی تقریب میں استفادہ کنندگان میں قرض کی منظوری کے مکتوب حوالے کئے گئے۔ عہدیداروں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ استفادہ کنندگان کے نام کے ساتھ جس کاروبار کا نام لیا جارہا تھا ان میں سے بعض امیدواروں نے کسی اور کاروبار کا نام لیا اس طرح اس اسکیم میں مبینہ بے قاعدگیوں کا پردہ فاش ہوگیا۔ اس تقریب کے بعد اقلیتی بہبود کے اعلیٰ عہدیداروں نے اسکیمات پر عمل آوری کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی فراہمی اسکیم کے تحت اقلیتی فینانس کارپوریشن امیدوار کو چھوٹے کاروبار کیلئے ایک لاکھ روپئے تک کی سبسیڈی فراہم کرتا ہے اور یہ رقم امداد کے طور پر ہے، اس کے ساتھ قومیائے ہوئے بینک کی جانب سے ایک تا دیڑھ لاکھ روپئے قرض فراہم کیا جاتا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہوا کہ امیدواروں، بینک حکام اور کارپوریشن کے بعض عناصر کی ملی بھگت سے اسکیم میں بے قاعدگیاں کی جارہی ہیں۔ امیدوار کو منظورہ سبسیڈی کی رقم اس شرط پر جاری کی جاتی ہے کہ وہ بینک سے جاری کردہ ایک لاکھ روپئے کی رقم کسی اور نام سے اسی بینک میں ڈپازٹ کردے۔ اس طرح بینک کی رقم محفوظ ہوجائے گی اور سبسیڈی کی رقم کا استعمال تجارت کے بجائے آپس میں تقسیم کی جارہی ہے۔ اس طرح کی کئی شکایات اعلیٰ عہدیداروں کو موصول ہوئیں لیکن کوئی واضح ثبوت نہ ہونے کے سبب کارروائی نہیں کی جاسکی لیکن حالیہ عوامی تقریب میں اس کا انکشاف ہوگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن میں ایک مخصوص گروہ اس بے قاعدگی میں ملوث ہے جس کے بینکوں کے اسٹاف سے قریبی روابط ہیں۔ اس طرح کی ملی بھگت کے ذریعہ بے قاعدگیوں کا سلسلہ گزشتہ چند برسوں سے جاری ہے جس کے باعث حقیقی مستحق امیدوار اسکیم کے فوائد سے محروم ہیں۔ 2014-15 کی اسکیم پر عمل آوری کا جائزہ لیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ حکومت نے گزشتہ سال اسکیم کیلئے بجٹ میں 82کروڑ 40 لاکھ روپئے مختص کئے تھے اور ابھی تک 25کروڑ 76 لاکھ روپئے جاری کئے گئے لیکن افسوس کہ کارپوریشن نے 31اگسٹ تک 15کروڑ 56لاکھ روپئے بطور سبسیڈی 1960 افراد میں جاری کئے ہیں جبکہ اس سال کا مجموعی نشانہ 8240 استفادہ کنندگان کو سبسیڈی فراہم کرنا ہے۔ ایسے امیدوار جو تمام شرائط کی تکمیل کے باوجود بھی کئی ماہ سے سبسیڈی اور قرض کی منظوری کیلئے فینانس کارپوریشن اور بینک کے چکر کاٹ رہے ہیں شکایت کی ہے کہ اگر منظورہ 1960 امیدواروں کی تجارت اور بینک سے جاری کردہ قرض کا جائزہ لیا جائے تو مزید بے قاعدگیاں منظر عام پر آسکتی ہیں۔ اسکیم میں بے قاعدگیوں کیلئے زیادہ تر اضلاع کا انتخاب کیا گیا تاکہ اعلیٰ عہدیداروں کی نظروں سے محفوظ رہیں۔ کارپوریشن نے حکومت کے جاری کردہ بجٹ کے مطابق 4294 امیدواروں کو سبسیڈی کی اجرائی کا نشانہ مقرر کیا تھا اور ابھی تک کریم نگر، نظام آباد میں صدفیصد نشانہ کی تکمیل کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کھمم، عادل آباد، میدک، نلگنڈہ میں اسکیم پر عمل آوری کا فیصد زیادہ ہے جبکہ حیدرآباد میں 49اور رنگاریڈی میں صرف 33فیصد نشانہ کی تکمیل کی گئی، اس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ اسکیم میں بے قاعدگیوں کیلئے اضلاع کا استعمال کیا گیا جبکہ شہر اور رنگاریڈی میں اسکیم کیلئے درخواست گذاروں کی تعداد علی الترتیب دیڑھ لاکھ اور 41 ہزار سے زائد ہے لیکن وہاں سبسیڈی حاصل کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ مذکورہ اسکیم کے علاوہ دیگر اسکیمات پر عمل آوری میں شفافیت کا جائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے۔