حیدرآباد۔ 9 ؍ فبروری (سیاست نیوز) مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور جناب کے رحمن خان نے مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک متحد ہوتے ہوئے جدوجہد نہیں کی جائے گی اس وقت ترقی ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے اقلیتوں کے مستقبل کو تابناک اور شاندار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب اقلیتوں کو طئے کرنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل شاندار بنائیں گے یا جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں ، ان حالات سے سمجھوتہ کریں گے ۔ انہوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی طاقت کو سمجھیں، رحمن خان نے کہا کہ یہ ملک اقلیتوں کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ رحمن خان نے فرقہ پرست طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقلیتوں کو طاقت بخشنے والے آئین کو بدلنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جناب رحمن خاں نے کہا کہ نریندر مودی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کارفرماسازشی اور فرقہ پرست طاقتیں جو آزادی سے لے کر آج تک اس ملک کے دستور کو سیکولرازم پر مبنی رکھنا نہیں چاہتے، ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی بات ہورہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ہم بھی ہندوستانی شہری ہیں ہمیں وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر ابنائے وطن کو حاصل ہیں ، ہمارے جو مطالبات ہیں وہ جائز اور حق بجانب ہیں۔ لیکن صرف مطالبات سے حقوق حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ انہیں اس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ ہم اپنے مسائل کی کسی طرح نشاندہی کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان ترجیحات کی نشاندہی میں ناکام رہا۔جناب رحمن خاں نے کہا کہ اگر ہم ترجیحات کا تعین کریں تو پھر کوئی طاقت اسے رد نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے ، اس میں تمام کی شراکت داری ہونی چاہے اور اگر کوئی پارٹی یا کوئی قوم طاقت کے بل بوتے پر من مانی کرے تو وہ جمہوریت نہیں کہلائے گی۔ انہوں نے فرقہ پرستی اور تقسیم سیاست پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہمارے پاس قیادت کا تسلط ختم ہوگیا ہے اور ہماری قیادت ضم ہوگئی ہے اب اس میں وہ طاقت نہیں رہی کہ وہ خود کو منواسکے۔ جناب رحمن خان نے کہاکہ قیادت کو طاقتور بنانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف خاص طورپر مولانا محمد علی ، مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی جیسے قائدین نے کانگریس پارٹی کی قیادت کی ہے ۔ ہندوستان مسلمانی کانگریس کو سنوارنے اور اسے طاقت دینے میں اتنی ہی قربانی دیا ہے جتنی دوسری قوموں نے دی ہے ، اس لئے ہمیں کانگریس سے لگاؤ ہے ۔ کانگریس کو مستحکم کرنے کی شدید ضرورت ظاہر کرتے ہوئے رحمن خاں نے کہا کہ کانگریس کو کمزور کرنا اپنے آپ کو کمزر کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ملک میں کانگریس کے خاتمہ کی صورت میں دستور کا بھی خاتمہ ہونے کا دعوی کیا ۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کانگریس پر برہمی کا اظہار نہ کریں بلکہ غلطی کرنے والے قائدین پر غصہ جتائیں۔ کانگریس کو کمزور کرنا مسلمانوں کے حق میں فائدہ مند نہیں ہے ۔ وزارت اقلیتی امور کے سات سال کی تکمیل پر انہوں نے کہا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم نے مکمل کامیابی حاصل کی ، بلکہ اسکیمات کا جو ڈھانچہ بنایا گیا ہے اگر اس پر عمل آوری ہوتی ہے اور اس کے ثمرات سے استفادہ ہوا ہے تو ہمارے مطالبات کا جواب ہمیں مل جائے گا۔
انہوں نے بتایاکہ مرکز کی جانب سے تعلیمی سطح پر بہتر پروگرامس چل رہے ہیں جو غریب طلبہ کے لئے چلائے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں ایک کروڑ بچو ںکو اسکالر شپس اور ملٹی سیکٹر ڈیولپمنٹ پلان کے تحت مسلم علاقوں میں انفراسٹرکچر اسکولس کے تحت ہر ضلع میں بلاک سطح پر 10کروڑ روپیوں کے مصارف سے انفرااسٹرکچر کی فراہمی جیسے اقدامات روبہ عمل لائے جارہے ہیں۔ قانون حق کی اطلاعات کے ذریعہ اپنے حقوق کو منوانے کے بجائے ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے اس قانون کے استعمال پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ 5کروڑ بچوں کو ہنر سازی پروگرام کے تحت لایا جارہا ہے ۔ جن میں 75لاکھ کا تعلق اقلیتی آبادی سے ہے ۔ رحمن خاں نے انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کو پارلمنٹ میں پیش ہونے سے روکنے کی فرقہ پرست طاقتوں خاص طورپر بی جے پی کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے ایک قانون نہیں ہونا چاہے ملک بھر میں 60ہزار فرقہ وارانہ فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کیسی سونچ وفکر کے لوگ ہیں جو فرقہ وارانہ سیاست پر عمل کرتے ہیں۔ وقف بل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون بنایا ہے ، لیکن جس کے لئے یہ قانون بنا ہے وہ اگر بدیار نہ ہوں گے تو قانون کیا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر لاکھوں ایکر وقف جائیدادیں ہیں اگر مسلمان اسے اللہ کی ملکیت تصور کرتے ہوئے اس کے نگران کار سپاہی کی حیثیت سے اس کا تحفظ کرنے لگے تو کسی کی جرأت نہیں کہ اوقافی املاک پر قبضہ جماسکے اور ان اراضیات کا تحفظ ہمارے مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔صدر اترپردیش کانگریس و رکن پارلیمان پرمود تیواری نے کہا کہ اگر اقلیتوں کی قربانیاں شامل نہیں رہتی تو اس ملک کو آزادی حاصل نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت مضبوط ہوگا جب اقلیتں مضبوط و محفوظ ہوں۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کچھ کمیاں اور خامیاں ہیں جسے دور کردیا جائے گا۔ انہوں نے اقلیتوں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے اس کا سہرا کانگریس کے سرباندھتے ہوئے کہا کہ ملک کو متحد کرنے کی ضرورت پڑی تو اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں ۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے طبقات کے نام پر ہمیں تقسیم کیا او رغلام بنائے رکھا، لیکن موجودہ دور میں ایک ایسا شخص منظر عام پر آیا ہے جو ملک کا مقتدراعلیٰ بنننے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے ۔ انگریزوں نے تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی اپنائی تھی اور نریندر مودی قتل کرو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، پرمود تیواری نے کہا کہ نفرتوں کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان م افضل نے کہا کہ قیادتیں اگر اچھی تو ہوں بہت کچھ اچھا ہوسکتا ہے ۔ رکن راجیہ سبھا ایم وی ہنمنت راؤ نے رحمن خاں کی توجہ وقف اراضیات کے تحفظ پر مبذول کروائی اور کہا کہ وقف جائیدادوں کی آمدنی سے مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنایا جاسکتاہے ۔ نریندر مودی کو انسانیت دشمن قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس سلسلہ میں مودی کو ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے پیش کرنے والی میڈیا کی کوششوں پر بھی تنقید کی۔ رکن قانون ساز کونسل و صدر آل انڈیا مائناریٹی فورم جناب محمد علی شبیر نے اقلیتوں کے کاز کے لئے جناب رحمن خاں کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نعرے اور کمیشن ہماری ضروریات کو پورا نہیں کرسکتیں۔ انہوں نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو مکل بھر میں 4.5 فیصد تحفظات اور ان کے لئے علیحدہ سب پلان کو منظوری کے اقدامات کرنے محمد علی شبیر نے مرکزی وزیر اقلیتی امور کی توجہ اس جانب بھی مبزول کروائی کہ وہ ملک کی 20ہزار کروڑ کی آبادی کے لئے بجٹ کو 20ہزار کروڑ کے بجٹ میں تبدیل کریں۔ بانی و سکریٹری آل انڈیا مائناریٹی فورم جناب جابر پٹیل نے فورم کے اغراض و مقاصد اور اس کی کارکردگی پر تفصیلی روشنی ڈالی اور مہمانان کا خیر مقدم کیا۔
جابر پٹیل نے کہا کہ فورم کی جانب سے مسلمانوں کو ان کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے ملک بھر میں جلسہ و سمینار منعقد کئے جارہے ہیں او رمرکزی سطح پر حکومتوں سے نمائندگیاں کی جارہی ہیں۔ مرکزی مملکتی وزیر فینانس جے ڈی سیلم اور وزیر پنچایت راج جاناریڈی کے علاوہ رکن خواتین کمیشن ثمینہ شفیق ، سابق وزیر محمد فریدالدین، جناب محمد قمر الدین انجینئر علی صمدانی قادری سریش بنجامن، عتیق صدیقی ، خلیق الرحمن، مولانا خسرو بیابانی، ایس کے افصل الدین اور دیگر نے مخاطب کیا۔جناب محمد حسان عرفان نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔