عمل آوری پر خطرہ کی گھنٹی ، درخواستوں کی کثرت ، بجٹ کی قلت
حیدرآباد۔/3مارچ، ( سیاست نیوز) اقلیتی فینانس کارپوریشن کی سبسیڈی سے مربوط قرض اسکیم پر عمل آوری تلنگانہ حکومت کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسکیم پر عمل آوری پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ مذکورہ اسکیم کیلئے درخواستوں کے ادخال کی آخری تاریخ میں 29فبروری سے 15مارچ تک توسیع دی گئی اور تاحال موصولہ درخواستوں کے اعتبار سے کارپوریشن کو سبسیڈی کی اجرائی کیلئے 2057کروڑ روپئے کی ضرورت پڑے گی۔جبکہ اقلیتی بہبود کا مجموعی بجٹ 1130 کروڑ ہے جس میں سے ابھی تک صرف 40فیصد ہی جاری کیا گیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ آج تک ایک لاکھ 18ہزار 526 درخواستیں داخل کی گئیں اور توقع ہے کہ 15مارچ تک یہ تعداد بڑھ کر دیڑھ لاکھ سے زائد ہوجائے گی۔ حکومت نے اقلیتی فینانس کارپوریشن کو جو نشانہ مقرر کیا ہے اس کے تحت ریاست بھر میں 8200 افراد کو سبسیڈی فراہم کرنا ہے جس کیلئے 90کروڑ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیڑھ لاکھ درخواستوں میں 8200 امیدواروں کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا۔ کیا حکومت تمام درخواستوں کو منظوری دیتے ہوئے 2057کروڑ روپئے کا بجٹ فراہم کرے گی یا پھر ہزاروں درخواست گذاروں کو محروم کردیا جائے گا۔ محکمہ اقلیتی بہبود اور اقلیتی فینانس کارپوریشن کے عہدیدار بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ دیڑھ لاکھ درخواستوں میں 8200کے انتخاب کا طریقہ کار کیا ہوگا؟۔ کیا عازمین حج کی طرح قرعہ اندازی کے ذریعہ امیدواروں کو منتخب کیا جائے گا یا پھر کوئی اور طریقہ کار حکومت کے زیر غور ہے؟۔ امیدوار خود اس بات کو لیکر حیرت میں ہیں کہ انہیں تمام دستاویزات کے حصول اور آن لائن درخواستیں داخل کرنے کیلئے کم سے کم 1000روپئے کا خرچ ہورہا ہے اور اس کے لئے تقریباً ایک ہفتہ مختلف دفاتر کو بھاگ دوڑ کرنی پڑرہی ہے۔ آن لائن درخواستوں کے ادخال کے بعد ہارڈ کاپی داخل کرنے کیلئے فینانس کارپوریشن کے متعلقہ ای ڈی دفاتر میں اپنی باری کا انتظار کرنے کی زحمت بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔ ایسے میں سبسیڈی سے متعلق اسکیم نہ صرف محکمہ اقلیتی بہبود بلکہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نشانہ میں اضافہ کے باوجود بھی ایک لاکھ سے زائد افراد کو سبسیڈی فراہم کرنا ممکن نہیں۔ آج سرکاری طور پر ایک لاکھ 18ہزار 526 درخواستوں کے ادخال کی توثیق کی گئی جن میں حیدرآباد سے 61,280 ، رنگاریڈی 12,398، محبوب نگر 7152، میدک 5174 ، نلگنڈہ 3923، کھمم 5692، ورنگل 5654، کریم نگر 5751، نظام آباد 6936 اور عادل آباد سے 4566 درخواستیں داخل کی گئیں۔ فینانس کارپوریشن نے ان درخواستوں میں سبسیڈی کی شرح کے اعتبار سے بجٹ کی ضرورت کا اندازہ کیا ہے۔ امیدواروں نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ حیدرآباد کے ای ڈی آفس میں داخل کی جانے والی ہارڈ کاپیوں کو کچرے کی طرح پھینک دیا جارہا ہے جس کے سبب کئی دستاویزات درخواست سے علحدہ ہورہے ہیں۔ جانچ کے موقع پر ایسی درخواستوں کے مسترد کئے جانے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں جب عہدیداروں سے استفسار کیا گیا تو ان کا یہی کہنا تھا کہ اس قدر بڑی تعداد میں امیدواروں کو سبسیڈی کی اجرائی ممکن نہیں ہے لہذا ہارڈ کاپیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کوئی بری بات نہیں۔ دوسرے معنوں میں عہدیدار یہ کہہ رہے ہیں کہ جب سبسیڈی دینا ہی نہیں ہے تو پھر ہارڈ کاپی کی حفاظت کس لئے؟۔ دوسری طرف ای ڈی رنگاریڈی کے دفتر میں ہارڈ کاپی قبول نہ کئے جانے کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ کئی امیدواروں نے دفتر سیاست پہنچ کر ای ڈی رنگاریڈی کے عہدیداروں کی شکایت کی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے ہیڈ آفس میں بھی عوامی شکایات کی سماعت اور ان پر کارروائی کرنے والا کوئی نہیں۔