افغانستان کے پڑوس میں ناپاک عزائم کیلئے محفوظ پناہ گاہیں موجود

جبری وصولی اور منشیات کی غیرقانونی تجارت دہشت گردانہ نیٹ ورکس کے اہم مالی ذرائع ۔ اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندہ کی بحث

اقوام متحدہ ۔ 18 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے درپردہ حوالہ میں ہندوستان نے کہا ہیکہ افغانستان کے پڑوس میں کئی برس سے مختلف دہشت گردانہ تنظیموں جیسے طالبان اور لشکرطیبہ کے سیاہ ایجنڈوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔ ہندوستان نے غیرقانونی منشیات کی تجارت کا ذکر بھی کیا جو ان دہشت گرد تنظیموں کیلئے مالی بقاء کا ذریعہ بن جائے۔ ہندوستان کے مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ سفیر سید اکبرالدین نے پیر کو افغانستان کے بارے میں سیکوریٹی کونسل میں مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے اپنے حامیوں کی مدد کی، ملٹری آپریشنس جاری رکھے اور تشدد و تباہی برپا کئے جیسا کہ غزنی کا حالیہ حملہ ہے۔ اسی طرح افغانستان کے کئی حصوں میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جارحانہ حملے منصوبہ بند ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے کئے جاتے ہیں جو افغانستان کے پڑوس میں محفوظ پناہ گاہوں میں رہتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ پناہ گاہوں نے نظریاتی اور عملی طور پر طالبان، حقانی نیٹ ورکس، داعش، القاعدہ اور اس جیسے ممنوعہ تنظیموںکے سیاہ ایجنڈوں کیلئے حفاظت فراہم کئے ہیں۔ ملحق تنظیموں میں لشکرطیبہ اور جیش محمد شامل ہیں۔ اکبرالدین نے مزید کہا کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے ایجنڈہ نہ صرف جبری وصولی بلکہ جبراً ٹیکسوں کے حصول کے ذریعہ مالیاتی بقاء حاصل کرتے ہیں۔ ڈرگ کے مجرمانہ نٹ ورکس سے بھی فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں۔ تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ طالبان کے 60 فیصد فنڈز منشیات کی تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اور افیون کی کاشت طالبان کنٹرول والے علاقوں میں سب سے بڑی نقد فصل ہوا کرتی ہے۔ انھوں نے تشویش ظاہر کیا کہ اگرچہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد رواں سال منظور کی گئی تاکہ انتہاء پسندی، دہشت گردی، ڈرگ کی پیداوار اور افغانستان کے قدرتی وسائل کے غیرقانونی استحصال کے درمیان رابطوں پر نظر رکھنے کیلئے اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارہ کے اختیارات میں وسعت دی جائے، لیکن طالبان کی ڈرگ تجارت کو ناکام بنانے کیلئے مساعی میں توقعات ناکام ہوجاتے ہیں۔ سکریٹری جنرل کی تازہ رپورٹ بھی اس مسئلہ کی معقول انداز میں یکسوئی کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ انھوں نے ادعا کیا کہ دہشت گرد نیٹ ورکس کی جانب سے غیرقانونی تجارت پر قابو پانے کے خاکے تو موجود ہیں لیکن عمل آوری نہیں ہورہی ہے۔ ایسا تخمینہ ہیکہ اگر ٹھیک نشانہ حاصل کیا جائے تو اسلامک اسٹیٹ کی طرح آمدنی میں تقریباً 90 فیصد کمی ہوسکتی ہے۔