افغانستان کے مستقبل کا مسئلہ

حقیقتوں سے پرے گفتگو جدھر دیکھو
ہر ایک شخص کترتا ہوا لگے ہے مجھے
افغانستان کے مستقبل کا مسئلہ
افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کیلئے ٹرمپ نظم و نسق کے فیصلے کے بعد اس جنگ زدہ ملک میں حملوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ دارالحکومت کابل میں سرکاری کمپاؤنڈ پر حملے کے نتیجہ میں مرنے والوں کی تعداد 43 ہوگئی۔ ٹرمپ نظم و نسق کے فیصلہ کو موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھنے والے ملکوں نے اسے غیردرست قرار دیا ہے۔ افغان سرزمین پر موجود 14,000 امریکی فوجیوں کی تعداد نصف کردینے سے یہاں کی امن کی صورتحال بہتر ہوسکے گی۔ اس پر توجہ دینے والے دیگر ملکوں نے اس فیصلے کو چونکا دینے والا بھی کہا ہے۔ افغانستان میں امن کے عمل کو مخلصانہ طور پر جاری رکھنے کے لئے کوشاں ملکوں نے اپنے نیک جذبہ کا اظہار کیا ہے۔ ان میں ہندوستان کا رول بھی اہم ہے۔ جنگ زدہ ملک میں تعمیر نو پراجیکٹس انجام دینے میں ہندوستان نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی مگر امریکی افواج کی تعداد گھٹانے کا فیصلہ اچانک کیا گیا ہے تو اس سے شورش زدہ ماحول میں مزید ابتری آئے گی۔ فرانس اور جرمنی نے امریکہ کے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ آیا کابل میں ایک عبوری حکومت کی حمایت کے لئے ہندوستان اپنی فوج تعینات کرسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی 7,000 سے زائد فوج افغانستان سے واپس طلب کرنے کا فیصلہ کرکے یہ خلاء پیدا کردیا ہے۔ جس کو فوری پُر کرلینا ضروری ہوگا۔ امریکی ڈیفنس سیکریٹری کی حیثیت سے جم میٹس کے استعفیٰ سے بھی صدر ٹرمپ نظم و نسق کے اندر پیدا ہونے والے اختلافات نمایاں ہوگئے ہیں۔ جم میٹس نے شام سے امریکی فوج واپس طلب کرنے کے فیصلے پر ہی احتجاجاً اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والی ناٹو افواج میں روس کے بھی سپاہی ہیں لیکن اب یہ اندیشہ بڑھنے لگا ہے کہ امریکہ خود محفوظ طور پر بچ نکلنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ وہ افغانستان میں امن بحال کرنے میں ناکام ہوا ہے۔ یہاں جمہوری حکومت کے بجائے طالبان کی حکومت کے دوبارہ احیاء کے حالات پیدا کرنے کی صورتحال واضح دکھائی دے رہی ہے جیسا کہ طالبان نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور اپنی طاقت کو مجتمع کرنے میں کامیاب کوشش شروع کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے افغانستان کے ایک بڑے حصہ پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے کہ یہ پڑوسی ملک پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ ایسے میں اس وقت افغانستان کے شہریوں کے سامنے ایک سوال یہ کھڑا ہوگا کہ اگر دنیا کا ہر ملک افغانستان میں جاری قتل عام اور خون کے دریا بہانے کے واقعات کو خاموشی سے دیکھتا رہے تو پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔ افغانستان کے عوام اور نہ ہی افغان حکومت ایسا چاہے گی کہ ان کا ملک جنگ کے تباہ کن برسوں بعد بھی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے اثرات اور حالیہ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ طالبان کو دوبارہ اقتدار حوالے کرنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ اقتدار جمہوری طرز پر تفویض کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان نے اپنے پڑوس میں ہونے والی تبدیلیوں کو تشویشناک قرار دیا ہے تو دوسری طرف طالبان نمائندوں سے ملاقات کرکے بعض معاملوں میں مفاہمت بھی کروائی ہے۔ اس میں افغان روڈ میاپ شامل ہے۔ یہ افغان روڈ میاپ ظاہر ہے امریکہ اور طالبان مذاکرات کاروں کی کسی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ امریکہ نے طالبان سے افغان روڈ میاپ طئے کرنے کے بعد ہی افغانستان سے اپنی فوج کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ فیصلہ اچھے نتائج بھی برآمد کرسکتا ہے۔ اگر طالبان نے کابل پر اپنا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا تو ویسے میں وہاں ہندوستان کا موقف اور رول کیا ہوگا۔ یہ سوال بھی غور طلب ہے۔ افغانستان کی صورتحال کا وہ کس طرح سامنا کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ طالبان کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے نہیں دیا جائے یا وہ ایسے کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں لیکن اب جو تبدیلیاں سامنے آرہی ہیں، اس سے اشارہ ضرور ملتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا احیاء ہونے والا ہے۔ امریکہ نے درپردہ طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ افغانستان میں زیادہ دن ٹک نہیں سکے گا۔ اس ملک سے محفوظ طور پر نکل جانے میں ہی عافیت ہے۔ ایک طویل جنگ اور لاکھوں انسانوں کی تباہی کے بعد امریکی طاقت کو ناکامی کے ساتھ واپس ہونا پڑ رہا ہے تو یہ افغان امن کا خواب دیکھنے والوں کے لئے شدید دھکہ ہے۔ امریکہ نے صرف افغانستان کو بیچ راہ میں چھوڑ دیا ہے بلکہ شام میں بھی اس کا رویہ یہی رہا ہے۔ شام میں اگست 2013ء میں جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے جنگی جہاز شام کے قریب پہونچے تھے تو جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس پر روس اور ایران نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اب شام کا بحران جوں کا توں چھوڑ کر سرزمین شام سے نکلنے کا فیصلہ کیا گیا جو افسوسناک ہے۔