افغانستان اور طالبان

ثمر آور کبھی شدت پسندی ہو نہیں سکتی
مزاج معتدل ہی کامیابی کی ضمانت ہے
افغانستان اور طالبان
افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے 15 فروری کو 25 سال پورے ہوئے ہیں۔ اس تاریخی واقعہ کے حوالے سے طالبان نے امریکہ کو انتباہ دیا ہے کہ اس کا بھی یہی حشر ہوگا، لیکن 25 سال قبل افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے، اس کی وجہ سے سب سے زیادہ پاکستان کو متاثر ہونا پڑا۔ خاص کر پاکستان کے قبائیلی صوبہ خیبر پختونخواہ میں طالبان تحریک اور مقامی کمانڈرس کے اثر نے یہاں اب تک ہزاروں جنیں تلف کی ہیں۔ 25 سال بعد امریکہ کو بھی افغانستان سے نکلنے کے لئے زور دیا جارہا ہے۔ سوویت یونین کی واپسی کے تناظر میں کامیابی نے ناٹو فوج کو بھی امریکہ کے انخلاء کے لئے مقررہ تاریخ سے ایک سال قبل ہی نکل جانے کی ہدایت دی ہے۔ افغانستان میں جہاں ایک دہے سے شورش کا ماحول ہے، پاکستان سے متصل سرحدوں پر خون ریزی جاری ہے تو بیرونی افواج کی موجودگی کے بغیر یہ خطہ کسی حد تک پُرامن رہے گا۔ یہ غور کرتے ہوئے بھی نواز شریف حکومت نے طالبان تحریک سے مذاکرات کی پہل کی جس کے پوری طرح سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے، تاہم طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی جانب پیشرفت ایک اہم تبدیلی ہے۔ افغانستان میں باہمی سکیوریٹی معاہدہ پر اوباما نظم و نسق سے صدر حامد کرزئی کے تعلقات میں تعطل کے درمیان اہم صدارتی انتخابات پُرامن طریقہ سے منعقد ہوتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ طالبان اس وقت افغانستان اور پاکستان میں قیام امن کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں تو ان سے ایک طرف حکومت پاکستان مذاکرات عمل چاہتی ہے تو دوسری طرف افغانستان میں طالبان کا رول عالمی طاقتوں کے لئے تشویشناک بناہوا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے یہ واضح کیا تھا کہ اس خطہ میں قیام امن کے لئے افغانستان میں استحکام ضروری ہے۔ اس لئے افغانستان میں آئندہ انتخابات کی کامیابی اور ایک حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار کی خوشگوار منتقلی کو یقینی بنانے میں وہاں کے حالات کس حد تک ساتھ دیتے ہیں؟ یہ دیکھنا اہم ہے۔ پاکستانی طالبان سے امن مذاکرات کے سلسلہ میں جن مثبت نتائج کی توقع کی جارہی ہے، اس کے مطابق اگر طالبان تحریک پاکستان میں جنگ بندی کے لئے تیار ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پڑوسی ملک افغانستان پر بھی مثبت طور پر مرتب ہوں گے، مگر افغانستان کی صورتِ حال اور عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ نے وہاں کی سکیوریٹی صورتِ حال کو تشویشناک بنایا ہے۔ ہر روز اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ سال 2013ء میں ہی افغانستان میں 3,000 شہری ہلاک اور 5,600 شہری زخمی ہوئے تھے۔

اس سلسلہ میں اقوام متحدہ نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور سکیوریٹی کی ذمہ داری افغان فوج کے حوالے کردیا گیا تو عام شہری کی زندگی کے لئے خطرات میں اضافہ ہوگا۔ شدت پسندوں کے حملوں میں افغانستان کا امن بحال نہیں ہوگا، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کے باوجود افغان شہریوں کی زندگیوں کو کوئی سلامتی نہیں ملی تو اس کے بعد ’زندگیاں محفوظ نہیں رہیں گی‘ کا تاثر پیدا کرنا غلط ہے۔ کیونکہ بیرونی افواج کی موجودگی سے ناراض گروپ ہی حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ بیرونی افواج کا انخلاء ہوجائے اور امن کی ذمہ داری افغان فوج کے حوالے کی جائے تو جھڑپوں کے واقعات میں کمی کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو طالبان کی طاقت دوبارہ اُبھرنے کا اندیشہ ہے۔ یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان پر پھر اقتدار یا قبضہ حاصل کرلیا تو امن کے حالات کیا کروٹ لیں گے؟ جاریہ سال کے اواخر تک امریکہ اور برطانوی فوج کو واپس جانا ہے۔ اگر افغان حکومت رونما ہونے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کی اہل ہوجائے تو افغانستان کو خود اس کے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کرنی چاہئے، لیکن کیا افغانستان کی فوج اپنے بل پر نئے چیالنجس کا سامنا کرنے تیار ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے۔ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نئے صدر باصلاحیت ہوں تو پاکستان کو اس کی مدد کرنے اور امن کی جانب قدم اُٹھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔

طالبان تحریک پاکستان بھی نواز شریف حکومت سے تعاون کرتے ہوئے جنگ بندی کو کامیاب بناتے ہیں تو اس خطہ میں انسانی زندگیوں کو مزید تلف ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔ طالبان کے تعلق سے یہی کہا جارہا ہے کہ ان میں پہلے جیسا جارحانہ جوش نہیں ہے، لیکن اب بھی وہ منظم ہیں۔ برطانوی اور امریکی فوج سے نبرد آزمائی سے انھیں جنگ کے کئی ہُنر سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے اپنے ملک کے عوام کو امن کی زندگی فراہم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں امن اقدامات کو ترجیح دینی ہوگی۔ طالبان کو اپنی طاقت پر کامل بھروسہ ہے۔ افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بھی وہ پُرعزم ہیں۔