اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی محدثانہ بصیرت

مولانا محبوب عالم عالم اشرفی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ (مطابق ۱۴؍جون ۱۸۵۶ء) بریلی شریف (اتر پردیش) کے محلہ جسولی کے ایک علمی گھرانے میںہوئی۔ آپ کا نام محمد اور تاریخی نام ’’المختار ‘‘ رکھا گیا۔ آپ کے دادا جان حضرت مولانا شاہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے احمد رضا نام تجویز فرمایا۔ اس خاندان کی علمی اور دینی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعلیٰ حضرت کو عہد طفولیت ہی سے دین کی طرف مائل کر دیا تھا۔ آپ نے جن حضرات کی آغوش میں پرورش پائی، وہ اپنے وقت کے متبحر عالم تھے۔ چنانچہ آپ کو تفسیر قرآن، حدیث و اصول حدیث، علم فقہ، معقول و منقول، شعر و سخن، ادب و تاریخ، سائنس و ریاضی، یعنی تقریباً ۴۵ علوم و فنون میں مہارت تامہ اور بصیرت کاملہ حاصل تھی۔علم فقہ میں آپ کی شاہکار تصنیف ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی جلدیں انتہائی شاندار اور بے مثال کارنامہ ہیں، جس میں شامل احادیث کی تعداد۳۵۵۱ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حیرت انگیز قوتِ حافظہ عطا کی تھی، آپ نے صرف ایک ماہ میں پورا قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ آپ ایک سچے عاشق رسول تھے، جس کا اندازہ آپ کے نعتیہ مجموعہ ’’حدائق بخشش‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس فن (شاعری) کا استعمال آپ نے صرف حمد و نعت اور منقبت کے لئے کیا، یعنی کبھی کسی دُنیادار شخص کی خوشنودی یا اس کی تعریف و توصیف میں کوئی کلام نہیں لکھا۔

اعلیٰ حضرت کی آٹھ تصانیف میں کہیں ضمناً اور کہیں تفصیلاً حدیث، معرفت حدیث اور مبادیات حدیث کی نفیس اور شاندار بحثیں موجود ہیں۔ آپ نے مسائل بیان کرنے کے لئے پہلے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ تحریر کیں، اس کے بعد فقہی جزئیات کے ساتھ ائمہ و فقہاء کے اقوال پیش کئے، یعنی ہر مسئلہ کی تحقیق اور ثبوت میں دلائل کے انبار لگادئیے اور زیر بحث مسئلہ کے کسی بھی گوشہ کو تشنۂ تکمیل نہیں چھوڑا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم محدث بھی تھے، جن کے علم و بصیرت پر ہم عصر علماء کو ناز تھا۔ کتب حدیث کی جتنی بھی اقسام ہیں، ان تمام کے حوالہ جات آپ کی تصانیف میں جابجا ملتے ہیں، یعنی آپ نے تمام کتب حدیث سے بھرپور استفادہ کیا۔ علم حدیث کے حوالے سے فن تخریج حدیث کی اہمیت مسلم ہے، اعلیٰ حضرت نے اس بنیادی اوراہم فن میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ اس سلسلے میں دو کتب انتہائی اہم ہیں: (۱) ’’الروض البھیج فی آداب التخریج‘‘ (۲) ’’النجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب‘‘۔ معرفت حدیث پر تحقیق کے سلسلے میں مندرجہ ذیل کتب میں آپ کی بصیرت و مہارت ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

(۱) منیرالعین فی حکم تقبیل الابہامین (۲) الھاد الکاف فی حکم الضعاف (۳) حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین (۴) مدارج طبقات الحدیث (۵) الفضل الموہبی فی معنی اذا صح الحدیث فہو مذہبی۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے چالیس سے زائد کتب حدیث پر حواشی تحریر کئے، جن میں صحاح ستہ کے حواشی انتہائی جامع اور مفید ہیں۔ ان حواشی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عام مصنفین کی طرح عربی متون و شروح سے ماخوذ نہیں، بلکہ یہ آپ کے ذاتی و اجتہادی افادات و اضافات ہیں۔ یہ حواشی بذات خود مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علوم و فنون میں اسماء الرجال کو نہایت ہی مشکل تصور کیا جاتا ہے، مگر اعلیٰ حضرت کی خداداد صلاحیت اور علمی سطوت کے مقابل یہ فن پیچیدگی کے باوجود سہل معلوم ہوتا ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی طرح اسماء الرجال کو جاننے والا ماضی قریب کی صدیوں میں پیدا نہیں ہوا۔

آپ کی تصانیف میں جہاں احادیث کا ذخیرہ موجودہے، وہیں معرفت حدیث، طرق حدیث اور علل حدیث پر بھی شاندار بحثیں ملتی ہیں۔ جن سے حدیث کے صحیح، ضعیف، حسن، موضوع، معلول و منکر وغیرہ ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ متن حدیث کے ساتھ سند حدیث پر بھی آپ نے بحث کی ہے۔ راویوں کے احوال و آثار میں آپ کی معرفتِ ثقاہت کا پتہ چلتا ہے۔ اعلیٰ حضرت نے راوی کی حیثیت پر بھی بحث کی ہے، جو کہ قبول روایت حدیث میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ الغرض آپ علم حدیث کے جملہ گوشوں پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف علوم و فنون پر ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھیں اور قرآن پاک کا ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ کے نام سے کیا۔
عالم اسلام کا یہ آفتاب اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ مؤرخہ ۲۵؍ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ء بوقت نماز جمعہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ مزارِ پاک محلہ سودا گران بریلی شریف میں ہے۔ ہرسال ۲۵؍ صفر کو آپ کا عرس شریف منایا جاتا ہے۔