جوہرہ علی
اسلام ایک کامل دین اور مستقل تہذیب ہے، جس کی تعلیمات ایک خاص ماحول اور معاشرہ چاہتی ہیں۔ قرآن مجید کی سورتوں میں جو سورت اصلاح معاشرہ کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، وہ سورۂ حجرات ہے۔ سورۂ حجرات میں خاص طورپر ایک ہی جگہ متعدد اخلاقی نصیحتیں ملتی ہیں۔ اس سورہ میں اعمالِ صالحہ کی طرف توجہ دِلائی گئی ہے اور بہت سلیقہ سے ان باتوں کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سورہ میں معاشرہ کی برائیوں کا تذکرہ بھی ہے اور ان کا علاج بھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی بنیادی کمزوریوں کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سورہ کی چھٹی آیت میں یہ حکم ہے کہ ’’ہر سنی سنائی بات پر کان نہ دَھرا جائے اور جب تک کہ پورا اطمینان نہ ہو کوئی غلط رائے قائم نہ کی جائے‘‘۔
صالح معاشرہ کو وجود میں لانے کے لئے سب سے پہلے ایک خاص کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے امور پیش نظر رکھے جاتے ہیں اور اوصاف عالیہ سے متصف ہوکر انسان اپنا رول ادا کرتا ہے، تب کہیں جاکر ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ غور کریں کہ ایک صالح مسلم معاشرہ کی تشکیل کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کچھ نہیں کیا، طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف برداشت کیں، اس کے بعد ہی اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔ اسی لئے اصلاح عقیدہ کے بعد جس چیز پر قرآن میں سب سے زیادہ زور دیا گیا، وہ اصلاح معاشرہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے بعد ایک دوسرے کے حقوق اور معاشرے کے آداب بتائے گئے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اسلام کی خوبیوں سے واقف کروایا جائے۔ اگر ہم اپنے معاشرہ کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم سورۃ الحجرات میں دی گئی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ہرممکن دُور کرنے کی کوشش کریں۔ آج ہمارے درمیان جو برائیاں رائج ہیں، یہ سب دین سے ناواقفیت کی بنا پر ہے، جب کہ اصلاح معاشرہ کے لئے بنیادی چیز علم دین کا حصول ہے۔ اگر انسان کے پاس دین اور اس کی سمجھ ہوگی تو وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکے گا اور اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر گزار سکے گا۔