اولیائے طلبا و سرپرستوں کیلئے ایک نیا بوجھ ۔ حکومت و محکمہ تعلیم کی حسب روایت لا علمی و لا پرواہی
حیدرآباد 28 اگسٹ (سیاست نیوز) اسکولوں کی فیس میں اضافہ سے پریشان اولیائے طلبہ وسرپرستوں کی پریشانیو ںمیں مزید اضافہ کیا جا رہاہے اور اس پر حکومت اور محکمہ تعلیم یا انتظامیہ سے روک لگانے کے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور اسے مسابقت کا نام دیا جا رہاہے ۔ اسکولی طلبہ میں مسابقت کو فروغ دینے مختلف مقابلہ جات میں حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن ان کی یہ ترغیب مفت نہیں رہی ۔ کئی اسکولوں میں مقابلہ جات میں حصہ لینے کے نام پر طلبہ سے 20تا50 روپئے وصول کئے جارہے ہیں اور اس پر سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت نے جاریہ تعلیمی سال کے آغاز سے قبل اسکولوں میں فیس کو باقاعدہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا بلکہ اسکولوں نے من مانی طور پر فیس میں اضافہ کرلیا اور اب جاریہ سال تمام سرکردہ اسکولو ںمیں یہ رجحان عام ہوتا جا رہاہے کہ اسکول میں ہونے والے مقابلہ جات ہوں یا شہری ومنڈل سطح پر یا ریاستی سطح پر کوئی مقابلہ جات ہوں ان کیلئے اسکولوں کی جانب سے طلبہ کو حصہ لینے فیس وصول کی جا رہی ہے ۔ مسابقت کے اس دور میں جب طلبہ کے سامنے مقابلہ کی بات آرہی ہے تو وہ ان مقابلہ جات میں حصہ لینے تیار ہو رہے ہیں اور وہ مقابلہ میں حصہ لینے کی فیس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔اسکول انتظامیہ کا کہناہے کہ بیشتر مقابلہ جات اسکول کی جانب سے منعقد ہی نہیں کئے جارہے ہیں بلکہ کچھ تنظیموں کی جانب سے ان کا انعقاد عمل میں لایا جا رہاہے اور تنظیمیں فیس مقرر کرتی ہیں اس لئے انتظامیہ فیس وصول کرکے بچوں کو کو روانہ کر رہے ہیں۔باصلاحیت اور ذہین طلبہ کے سرپرستوںکا کہناہے کہ اسکولوں کی جانب سے مقابلہ جات میں حصہ لینے یہ فیس اذیت کے مترادف ہے کیونکہ مصروفیت کے سبب اگر اولیائے طلبہ ‘ والدین و سرپرست اگر فیس جمع نہیں کرواتے ہیں تو بچہ مقابلہ جات میں حصہ نہیں لے پاتا اور اس میں مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے۔ ذرائع کے مطابق بعض تنظیموں کی جانب سے مقابلہ جات کو بہترین تجارت کا موقف دیا جا چکا ہے اور انتہائی قیمتی انعامات رکھتے ہوئے مقابلہ جات منعقد کئے جا رہے ہیں جن میں بعض طلبہ 1000 روپئے تک فیس ادا کرتے ہوئے بھی حصہ لے رہے ہیں جبکہ عام مقابلہ جات میں حصہ لینے 20تا 50روپئے اور 100 روپئے تک بھی فیس وصول کی جا رہی ہے۔