اسلام دِلوں پر دستک دیتا ہے (۱)

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اسلام دین حق اور ایک فطری دین ہے، اس کا حق ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں،کیونکہ یہ کائنات کے خالق و مالک کا نازل کردہ دین ہے۔ وہ خالق و مالک جس کی ربوبیت کا زبان حال سے کائنات کا ذرّہ ذرّہ شہادت دے رہا ہے، لیکن کچھ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود مظاہر قدرت کا نظارہ اور خالق کائنات کی بے مثال صناعی کا مشاہدہ کرتے ہوئے بھی حق کی معرفت سے محروم ہیں۔ ایسے ہی معرفت الٰہی کے نور سے محروم بعض انسان ہمیشہ حق کے خلاف مقابلہ کرتے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی حقانیت پر ہر دَور میں اُنگلی اُٹھائی گئی اور اس کے خلاف لب کشائی کے جرم کا ارتکاب ہوتا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک وجہ تو یہ کہ باطل مذاہب کے پرستار اپنی اَنا کے حصار میں رہنے کی وجہ اسلام کو بطور حق تسلیم نہیں کرسکے اور جب اسلامی تعلیمات جو روزروشن کی طرح عیاں ہیں انسانی دِلوں پر قبضہ جمانے لگیں تو وہ اسلام کے سخت دشمن ہو گئے۔ داعیٔ اسلام سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راہِ حق سے ہٹانے کے لئے دنیوی لالچ دیا گیا، جیسے باطل راستہ پر چلنے والوں کو دنیا کے تعیشات کالالچ دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے حق اس کو کہاں خاطر میں لا سکتا ہے، چنانچہ آپﷺ کے چچا ابوطالب جوآپﷺ اور دشمنانِ اسلام کے درمیان ایک ڈھال تھے، قریش کے سربرآوردہ اصحاب نے ان پر دباؤ ڈالا کہ ’’یا تو آپ اپنے بھتیجہ محمد(ﷺ) کواس کام سے منع کر دیں یا پھر ان کو ہمارے حوالے کردیں‘‘۔ حضرت ابوطالب نے جب قریش کے احساسات کا اظہار کیا تو حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسترد فرمادیا اور فرمایا کہ ’’اللہ کی قسم! آپ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاندرکھ دیں، تب بھی میں اس حق کے پیغام کو عام کرنے سے باز نہیں آسکتا‘‘۔ دوسرے مرحلہ میں آپﷺکا سماجی مقاطعہ کیا گیا، چنانچہ آپﷺ اور آپﷺ کے خاندان کو تین سال مسلسل شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا۔ تیسرے مرحلہ میں آپﷺ کی تحریک کو ختم کرنے کے جذبہ سے آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا چراغ گُل کردینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دشمنانِ اسلام کو ہر مرحلہ میں شکست سے دوچار فرمایا اور وہ اپنی ناکامی کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

الغرض دشمنانِ اسلام نے آپﷺ اور آپﷺ کے مبارک اصحاب رضی اللہ عنہم کو ایذا پہنچانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت ہونے نہیں دیا، اس کے باوجود آپﷺ کی مبارک مکی زندگی جو بچپن سے لے کر ہجرت تک ۵۳ سال پر مشتمل ہے، اس پر کوئی دشمن اُنگلی اُٹھانے کی جرأت نہیں کرسکا اور کسی زبان کو یہ یارا نہ ہوسکا کہ آپﷺ کی پاکیزہ زندگی کے بارے میں کوئی لب کشائی کرسکے۔ بعد ازاں حضورسید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، اس کے بعد اسلام کی اشاعت اور پیغامِ حق کے عام ہونے کا دروازہ کھل گیا۔
زمانۂ نبوت کے بعد ہر دَور میں دشمنانِ اسلام نے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں جاری رکھیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن اسلام چوں کہ دین حق ہے اور سنت اللہ یہی ہے کہ ہمیشہ حق وصداقت کو غلبہ حاصل رہاہے، پھر بھی اسلام کے خلاف کئے جانے والے دشمنانِ اسلام کے پروپگنڈا سے سادہ لوح انسان ضرور متاثر ہوتے ہیں، جو اگرچہ کہ باطل پر قائم رہتے ہیں، لیکن ان کے دل میں اسلام کے خلاف کوئی نفرت نہیں ہوتی۔ حق، حق ہوتا ہے اس لئے جو سادہ لوح انسان ا س پروپگنڈا سے متاثر ہوتے ہیں اور ان پر جب حق کھل جاتا ہے تو وہ اس کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے، اور حق پر باطل طاقتوں نے جو غبار چڑھا دیا ہے، وہ حق کے ظاہر ہوجانے کی وجہ خود بخود چھٹنے لگتا ہے۔ (باقی آئندہ)