اسرائیل اور بین الاقوامی قوانین

فلسطینیوں کی مظلومیت پر افسوس کرنے والے ممالک نے اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کی ۔ اس کے برعکس اسرائیل اور موافق اسرائیل طاقتوں نے ظلم و زیادتیوں کے ہولناک واقعات کو دن بہ دن تیز کردیا ہے ۔ غزہ پٹی میں ہر روز فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ یہاں 30 مارچ سے اب تک 161 فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں ۔ نہتے عوام پر مارٹر شل برسائے جارہے ہیں ۔ فلسطینیوں کی پر زور حمایت اور ان کے حق میں اٹھنے والی عالمی آوازوں کے باوجود فلسطین کے مسئلہ کو سمجھنے اور فلسطینیوں کی مظلومیت پر غور کرنے میں ہنوز سنگین کوتاہیاں برتی جارہی ہیں ۔ اس علاقہ کی تاریخی حقیقت ثقافت ، ہر روز کے رونما ہونے والے تلخ اور نکتہ نظر کو بھی نظر انداز کر کے اسرائیل کی اندھا دھند کارروائیوں کو ہر روز مضبوط بنایا جارہا ہے ۔ فلسطینی عوام غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں جہاں اسرائیل نے طاقت کے بل پر اپنی آبادیوں کو قائم کیا ہے ۔ اس طرح کی زیادتیوں کی مخالفت کرنے والوں پر بم برسا کر چپ کروانے کی کوشش پر عالمی طاقتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں ۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کا نوٹ لینے کی کوئی ہمت کرے تو اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے ۔ فلسطینی اس بات کا برسوں سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ اسرائیل کو اس کے سنگین جرائم کی سزا دی جانی چاہئے اور وسیع تر تحقیقات کروائی جائے تو اسرائیل اس دنیا کا سب سے سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ملک پایا جائے گا ۔ غزہ تشدد نے بین الاقوامی سطح پر یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کا وقت آچکا ہے ۔ عالمی آبادی تو اب فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اقوام متحدہ میں فلسطینی مملکت کو تسلیم کرلیا گیا تو اس اسرائیل پر ہیگ کی عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے لیکن اسرائیل کی بنجامن نیتن یاہو حکومت نے فلسطینیوں کو ہی دہشت گرد قرار دینے کا کامیاب مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں اپنی مسلح افواج کی کارروائیوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسرائیلی فورس کو اپنی دفاع میں کارروائی کرتے ہوئے ظاہر کیا جارہا ہے وہ بین الاقوامی قانون کی عدالت کے سامنے اپنی جارحیت کو حق بجانب قرار دینے کی جھوٹے ڈرامائی پہلوؤں کو شدت سے پیش کرتا آرہا ہے ۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کا سخت نوٹ لیا جائے تو مشرق وسطی میں انصاف و امن کی بحالی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی ۔ یہ تو بہتر ہوا کہ حکومت فلسطین نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی جرائم کی عدالت میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے اور استغاثہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ فوری اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرے ۔ فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے اسرائیلی جنگی جرائم کی تعریف میں آتے ہیں ۔ اس کھلی حقیقت کے باوجود عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرنے کی سمت کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں ۔ ایسے میں خود مملکت فلسطین کو ہی اہم اور تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے عوام کے حقوق اور علاقائی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم غیر قانونی ناجائز قبضے ، قدرتی وسائل کا غیر قانونی استحصال کے ساتھ ساتھ نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کے لیے بہیمانہ و جارحانہ کارروائیوں کو روکنا از حد ضروری ہوگیا ہے ۔ اب بین الاقوامی عدالت میں فلسطینی حکومت کی عرضی کے بعد عالمی میکانزم کے لیے آزمائش کی گھڑی آچکی ہے وہ بین الاقوامی قانون کے احترام میں اپنا ذمہ دارانہ رول ادا کرے ۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں پیش کئے جانے والے مسودہ کی پر زور حمایت کرنا تمام ممالک کی ذمہ داری ہوگی ۔ جیسا کہ فلسطینیوں کے لیے ایک بین الاقوامی تحفظ مشن قائم کرنے پر قرار داد تیار کی جارہی ہے جس کی حمایت ہر ملک کو کرنی چاہئے ۔ یوروپی ممالک کی تائید کو کامیاب بنانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اس ہفتہ اگر یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے تو فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے عالمی مشن کام کرے گا ۔ مگر امریکہ نے ویٹو کرایا تو یہ مشرق وسطی میں بدامنی کو ہوا دینے والی سب سے بدترین کہلائے گی ۔