استقلال و جرات

بچو! مولاناشبلی نعمانی لکھتے ہیں 10 مئی 1892 ء کی صبح کو میں نیند سے جاگا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ۔ میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے ہوئے تھے اور اس کی درستی کی  تدبیریں کر رہے تھے ۔ انجن بالکل بے کار ہوگیا تھا اور جہاز نہایت آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا ۔ میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے ۔ اس اضطراب میں اور کیا کرسکتا تھا ۔ دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا ۔ وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے ؟ بولے ہاں ! انجن ٹوٹ گیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے ۔ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا ساوقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابل قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے ۔ ان کے استقلال اور جرات سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا ۔ آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بدستور چلنے لگا ۔