اساتذہ ہی معاشرہ کے معمار اور جوہر شناس

حیدرآباد28؍جنوری(پریس نوٹ) شاداں ایجوکیشنل سوسائٹی کے قیام کے بعد شاداں کالج آف ایجوکیشن (بی ایڈ) سب سے پہلا اقلیتی ادارہ ہے جہاں سے شاداں ایجوکیشنل سوسائٹی کے تعلیمی سفر کاآغاز ہوا ۔ شاداں کالج آف ایجوکیشن کا آغاز 20؍اپریل 1988 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے الحاق کے بعد کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد دیگر تعلیمی ادارے جات جس میں کے جی تا پی جی اور پروفیشنل کورسس جیسے ایم ایس سی ‘ ایم بی اے ‘ ایم سی اے ‘ انجینئرنگ‘ بی فارمیسی اور میڈیکل کالجس شامل قائم کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد وزارت رسول خان مرحوم نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اور ان اداروں کے قیام میں ان کا گراں قدر رول رہا ہے اور ڈاکٹر وزارت صاحب کی جانب سے شروع کردہ تعلیمی تحریک جنوبی ہند میں انقلاب کی نقیب بن گئی اب مسلمانوںکو چاہئے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں اور دیگر قوموں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور طلباء و طالبات کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ بالا تعلیمی اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے خود اپنے معیار تعلیم کو بلند کریں ۔ جناب شاہ عالم رسول خان نے اولیاء طلبہ و سرپرستوں سے خواہش کی کہ طلبہ کو ابتداء ہی سے ریاضی اور سائنس کے مضامین میں قابل بنانے کی کوشش کریں اور تدریسی اسٹاف کو ہدایت دی کہ بی ایڈ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو نصیحت کریں کہ وہ پورے انہماک اور جستجو سے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھیں ۔ جناب شاہ عالم نے کہا کہ پیشہ تدریس عزت و احترام والا ہے اس لئے کسی قسم کی رعایت نہ کی جائے ۔اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے بی ایڈ میں زیر تعلیم طلبہ کو یہ ترغیب دیں کہ وہ اساتذہ کی حیثیت ہر سطح پر نمایاں رہیں۔ جناب شاہ عالم رسول خان نے ڈاکٹر وزارت رسول خان صاحب (والد محترم) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے 26سال قبل جس ادارہ کا قیام عمل میں لایا اور جس منشاء و مقصد کے تحت اسے قائم کیا وہ کامیابی کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھا ہے۔

یہی نہیں بلکہ یہاں کے طلبہ یونیورسٹی سطح پر گولڈ میڈلس حاصل کئے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے ٹاپرس کی فہرست میں شامل رہے ۔ جناب شاہ عالم رسول خان نے بی ایڈ میں زیر تعلیم طلباء و طالبات پر زور دیا کہ وہ قابل بن کر خود بدلیں اور خاندان اور ملک و قوم کے لئے سرمایہ حیات ثابت ہوں۔ پروفیسر احمد اللہ خان نے کہا کہ چونکہ یہ کالج NAACسے اکریڈیٹ ہے جس کی وجہ سے ریسرچ پراجکٹس کو منطوری دینے میں سہولت ہوتی ہے۔ انہوں نے اساتذہ کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے ریسرچ پراجکٹس دیں تاکہ اقلیتی طبقہ کے طلبہ کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مدد ملے ۔ انہوں نے ہر ٹیچر کا ٹائم ٹیبل تیار کرنے پر زور دیا ۔ پرنسپل کالج ڈاکٹر مسز ارجمند آراء نے کہا کہ انسان دوست اور بہی خواہ و سابق ایم ایل اے ڈاکٹر محمد وزارت رسول خان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاداں کالج آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایاجس کا مقصد یہ ہے کہ غریب مسلم طبقہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ۔اب یہ ادارہ شاداں سوسائٹی کی سکریٹری محترمہ شاداں تہنیت اور سوسائٹی کے چیرمین ماہر تعلیم وحرکیاتی نوجوان محمد شاہ عالم رسول خان کی زیرنگرانی کام کررہا ہے ۔شاداں کالج آف ایجوکیشن کے پہلے بیاچ میں 160طلباء و طالبات کو داخلہ دیا گیا اور اب تک 26بیاچس فارغ ہوچکے ہیں۔شاداں کالج آف ایجوکیشن این سی ٹی آئی سے مسلمہ

اور عثمانیہ یونیورسٹی کا ملحقہ ادارہ ہے جسے 2009میں NAACکی فہرست میں بھی شمولیت کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ شاداں کالج آف ایجوکیشن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر فیکلٹی ممبرس کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں ، ہر سال طلباء و طالبات 95تا97فیصد نتائج برآمد ہوتے ہیں۔یونیورسٹی سطح پر کالج کے طلباء و طالبات گولڈ میڈلس بھی حاصل کرچکے ہیں۔ کیمپس انٹرویوز کا بھی اہمتام کیا جاتا ہے ۔ شاداں کالج کے طلباء و طالبات نصابی سرگرمیوں کی ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دیگر مصروفیات میں بھی ان کا متاثر کن مظاہرہ ہے ۔جاریہ سال آئی اے ایس ای عثمانیہ یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ مقابلوں میں شاداں کالج کو پہلا و دوسرا انعام ملا ہے۔شاداں کالج آف ایجوکیشن میں ہوادار کلاسس رومس اور عصری آلات سے لیس لیبارٹریز اور وسیع و عریض لائبریری بھی ہے جہاں پر 7ہزار ویلیموس اور 3ہزار عنوانات پر میگزنس جرنلس‘ 2ہزار ریفرنسس کے ساتھ ساتھ 5ہزار کتابیں موجود ہیں۔کالج کے طلباء و طالبات کو مختلف اسکولس میں پڑھانے کے لیے بھی روانہ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ سمینارس ‘ لکچرس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل کے اساتذہ کی معلومات میں اضافہ کیا جائے اور ان کی شخصیت سازی کی جائے۔اس جائزہ اجلاس میں صدرنشین کے علاوہ پروفیسر احمد اللہ خان وائس چیرمین (اکیڈمکس) پی سی ایم بی ‘ جناب محمد اعظم پبلک ریلیشنز آفیسر شاداں گروپ آف تعلیمی ادارے جات ‘ جناب رحمن شریف کے علاوہ تدریسی اسٹاف موجود تھا۔