ہمیشہ نہیں رہتے کبھی چہرے نقابوں میں
سبھی کردار کھلتے ہیں کہانی ختم ہونے پر
اروند کجریوال کا مشورہ
اپنے منفرد انداز اور بعض مرتبہ متنازعہ ریمارکس و فیصلوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے آج دہلی کے رائے دہندوں کو ایک ایسا مشورہ دیا ہے جس کی کم از کم ان سے امید نہیں کی جاسکتی تھی ۔ کجریوال نے دہلی کے عوام سے کہا کہ وہ دوسری جماعتوں جیسے بی جے پی اور کانگریس سے پیسے ( رشوت ) ضرور لیں لیکن ووٹ صرف عام آدمی پارٹی کو دیں۔ ویسے تو تقریبا ہر سیاسی جماعت اور ہر جماعت کا تقریبا ہر امیدوار رائے دہندوں کے درمیان جب جاتا ہے تو عوام سے یہی کہتا ہے کہ وہ بھلے ہی پیسے دوسروں سے لیں لیکن ووٹ صرف انہیں دیں۔ کوئی سیاسی جماعت یا کوئی سیاسی لیڈر اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا لیکن عام آدمی پارٹی کے قیام اور جس طرح سے اس نے عوامی زندگی میں شفافیت کو ترجیح دی تھی اس کو دیکھتے ہوئے یہ امید کی کی جا رہی تھی کہ کم از کم یہ پارٹی یا اس کے سربراہ کجریوال عوام کو اس طرح کا مشورہ نہیں دینگے ۔ ویسے تو ہندوستانی سیاست کرپشن کا شکار ہے اور اگر اس ملک اور سماج سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے یا پھر اس کو ممکنہ حد تک کم کرنا ہے تو سب سے پہلے ہندوستانی سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا چاہئے ۔ ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے دولت کا بے تحاشہ استعمال انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا ہو ۔ جب اس طرح کی کرپٹ روایتوں کو اختیار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جاتی ہے تو ان سے کرپشن کی روک تھام کی امید کرنا بھی فضول ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ اداروں سے جو فنڈز حاصل ہوتے ہیں ان میں بھی کسی طرح کی شفافیت نہیں ہوتی ۔ سیاسی قائدین انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دولت کو پانی کی طرح بہاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد جتنی دولت خرچ کی جارہی ہے اس سے کئی گنا دولت وہ قانونی اور غیر قانونی دونوں ہی طریقوں سے حاصل کرلیں گے ۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ انتخابات میں خرچ کو ایک اصطلاح میں محفوظ سرمایہ کاری بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو ہندوستانی جمہوریت کیلئے صحتمند ہرگز نہیں ہوسکتی اور اس کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ جہاں تک عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کا سوال ہے انہوں نے کرپٹ روایات کی ہمیشہ نفی کی ہے ۔ اس جماعت نے عوام کو ان کے حقوق کے تعلق سے بیدار کیا ہے اور انہیں دکھایا کہ شفافیت کے ساتھ بھی سیاسی زندگی کا سفر طئے کیا جاسکتا ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے جو عطیات جمع کئے ہیں ان کی فہرست کو بھی اس نے پیش کیا ہے ۔ اس پارٹی نے کارپوریٹ اداروں سے سیاسی جماعتوں کو ہونے والی فنڈنگ کو شفاف بنانے پر زور دیا ہے ۔ اس پارٹی نے کرپشن کے خاتمہ کو اپنا ایجنڈہ بنایا تھا اور اسی ایجنڈہ کو بنیاد بناکر اس نے انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کی تھی ۔ انا ہزارے نے جب کرپشن کے خلاف مہم شروع کی اور یہ مہم سارے ملک میں ہلچل پیدا کر رہی تھی اس وقت ہزارے کے بعد اروند کجریوال ہی تھے جنہیں مخالف کرپشن مہم کا چہرہ کہا جارہا تھا ۔ حالانکہ اس وقت اور بھی شخصیتیں تھیں لیکن اب وہ بھی سیاسی مفادات کا شکار ہو کر اقتدار کے لالچ میں اقدار اور روایات کو ترک کر رہی ہیں۔ کجریوال اور عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام نے محض اسی لئے اپنا ووٹ دیا تھا کہ وہ عوامی زندگی میں شفافیت لائیں اور عوام کو ان کے حقوق موثر انداز میں فراہم کرتے ہوئے حکمرانی کریں۔ تاہم کجریوال نے آج ایک ایسا ریمارک کیا ہے جس کی کسی بھی گوشہ کو کم از کم کجریوال سے امید نہیں تھی ۔ انہیں کرپشن کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے ریمارک سے عملا کرپشن کو فروغ دینے کی بات کی ہے ۔ اب دہلی میں انتخابات کا وقت قریب ہوتا جا رہا ہے اور سیاسی رسہ کشی عروج پر پہونچے گی ۔ بی جے پی نے کجریوال اور عام آدمی پارٹی کی مقبولیت اور اب تک ہونے والے سروے کی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے اپنی صفوں میں بھی ان عناصر کو شامل کیا ہے جو کرپشن کے خلاف مہم کا حصہ رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ کرن بیدی کو بی جے پی میں شامل کرلیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ انہیں دہلی میں وزارت اعلی امیدوار کے طور پر پیش کیا جائے ۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو دہلی میں کانگریس سے نہیں بلکہ عام آدمی پارٹی مقابلہ کا یقین ہے ۔ ایسی صورتحال میں اروند کجریوال کو اس طرح کے ریمارک سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ حالانکہ کئی موقعوں پر ایسے ریمارکس ہوتے ہیں لیکن چونکہ اروند کجریوال سے ایسے ریمارک کی امید نہیں تھی اس لئے اس کو مسئلہ بناکر پیش بھی کیا جارہا ہے ۔ کجریوال کو اس ریمارک پر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔