جونیرپروفیسر پر انچارج وائس چانسلر کی مہربانی،وائی فائی اسکام کا نیا موڑ، اساتذہ خوف کے عالم میں
حیدرآباد۔/12جون، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی اگرچہ مرکزی ایکٹ کے تحت قائم کی گئی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ہندوستان کے کسی قانون کی پابند نہیں۔ یونیورسٹی کے قیام سے لیکر آج تک یوں تو قواعد اور قوانین کی خلاف ورزی کی کئی مثالیں منظر عام پر آئیں لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں یونیورسٹی نے کچھ اس طرح کام کیا جیسے وہ سرکاری یونیورسٹی نہیں بلکہ خانگی ادارہ ہو۔ تقررات، ترقی کے علاوہ مختلف کاموں کی انجام دہی میں قواعد کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور وائس چانسلر کی سبکدوشی کے باوجود انچارج وائس چانسلر کی نگرانی میں یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اردو یونیورسٹی قواعد کی خلاف ورزی اور من مانی فیصلوں کا مرکز بن چکی ہے۔ تازہ ترین تبدیلی میں انچارج وائس چانسلر خواجہ ایم شاہد نے اپنے دورہ دہلی کے دوران ایک ایسے شخص کو انچارج مقرر کردیا جو کسی بھی اعتبار سے اس عہدہ کی اہلیت نہیں رکھتے۔ بتایا جاتا ہے کہ انچارج وائس چانسلر خود کو مستقل وائس چانسلر میں تبدیل کرنے کی پیروی کیلئے نئی دہلی میں ہیں۔ وہ اپنے پیشرو کی تائید کے ذریعہ یونیورسٹی پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے پیشرو کے مشن کی تکمیل ہو۔ واضح رہے کہ سبکدوش وائس چانسلر اور موجودہ انچارج وائس چانسلر کا تعلق ایک ہی ریاست سے ہے اور وہ ایک دوسرے کے بااعتماد رفیق ہیں۔ انچارج وائس چانسلر نے نئی دہلی روانگی سے قبل ایک ایسے پروفیسر کو انچارج مقرر کردیا جنہیں یونیورسٹی کے نصابی کتب کی اشاعت میں مبینہ طور پر 85لاکھ روپئے کے بے قاعدگی کے سلسلہ میں جبراً رخصت پر بھیج دیا گیا تھا۔ وائس چانسلر کی سبکدوشی کے ساتھ ہی مذکورہ شخص نے اچانک رخصت ختم کرتے ہوئے ڈیوٹی جوائن کرلی۔ انچارج وائس چانسلر نے انہیں اپنے غیاب میں تمام ضروری اُمور کی تکمیل کا نگرانکار مقرر کردیا جبکہ قواعد کے اعتبار سے یونیورسٹی میں سینئر ترین پروفیسر کو انچارج مقرر کیا جانا چاہیئے۔ مذکورہ انچارج سے پہلے مزید دو سینئر پروفیسر ہیں لیکن انہیں نظرانداز کرتے ہوئے ایک جونیر کو انچارج کی ذمہ داری دی گئی ۔ ظاہر ہے کہ انچارج وائس چانسلر کو ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان کے اشاروں پر کام کرے لہذا قواعد کو پس پشت ڈال کر انہیں نگرانکار مقرر کردیا گیا۔ اس معاملہ کو انتہائی راز میں رکھا گیا ہے اور اس سلسلہ میں جب یونیورسٹی کے نئے پی آر او آفتاب عالم بیگ سے ربط پیدا کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سبکدوش وائس چانسلر نے جس شخص کو میڈیا کوآرڈینیٹر مقرر کیا ہے انہوں نے تمام عہدیداروں پر میڈیا سے بات کرنے پر پابندی عائد کردی تاہم یونیورسٹی کے اندرونی حلقوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ انچارج وائس چانسلر نے دہلی روانگی سے قبل جونیر شخص کو نگرانکار مقرر کردیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر کے تقرر پر بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ خواجہ ایم شاہد کا کبھی بھی راست طور پر تدریس سے تعلق نہیں رہا لہذا وہ اس عہدہ کی اہلیت کے زمرہ میں نہیں آتے۔ چونکہ یونیورسٹی میں ہر سطح پر قواعد کی خلاف ورزی عام ہوچکی ہے لہذا من مانی فیصلے کئے جارہے ہیں جس کا اثر یونیورسٹی کی کارکردگی پر پڑ رہا ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسرس، اساتذہ اور دیگر ملازمین میں خوف و دہشت کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی فون پر بات کرنے تیار نہیں کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ فون ٹیاپ کئے جارہے ہیں۔ اپنے من مانی فیصلوں کو میڈیا میں اشاعت سے روکنے کیلئے سبکدوش وائس چانسلر نے ایک ریٹائرڈ صحافی کو قواعد کی خلاف ورزی کے ذریعہ میڈیا کوآرڈینیٹر مقرر کیا۔ جس انداز میں تقرر کیا گیا وہ باعث حیرت ہی نہیں بلکہ قواعد کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن میڈیا کوآرڈینیٹر سے یونیورسٹی کو اس لئے مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اپنے دعویٰ کے مطابق میڈیا پر کنٹرول نہیں کرسکے اور یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں کو اخبارات نے بے نقاب کردیا۔ مذکورہ کوآرڈینیٹر نے بعض افراد کے خلاف کارروائی کیلئے اسوقت کے پی آر او کو مہرہ کے طور پر استعمال کیا اور انہیں سیکشن سے علحدہ کردیا اور اپنی پسند کے شخص کو پی آر او مقرر کیا، اس طرح سبکدوش وائس چانسلر کی بے قاعدگیوں کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو نشانہ بنانے میں میڈیا کوآرڈینیٹر کا اہم رول ہے جس سے یونیورسٹی کا ہر فرد واقف ہے ۔ جو شخص خود ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت کررہا ہے اس نے یونیورسٹی کے مستقل ملازمین کو بیروزگار کرنے کی کوشش کی۔اسی دوران سابق وائس چانسلر کے دور میں یونیورسٹی میں وائی فائی سسٹم کو متعارف کرنے کیلئے 10کروڑ کے خرچ کا جو اسکام منظر عام پر آیا اس میں ملوث افراد کو بچانے کیلئے یونیورسٹی نے اچانک نوئیڈا کی کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کردیا ہے اور زائد رقم طلب کرنے کی شکایت کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت وائی فائی کا اسکام منظر عام پر آیا اسوقت یونیورسٹی نے بے قاعدگیوں کی تردید کی تھی لیکن اب سابق وائس چانسلر کے قریبی شخص کو جو اس اسکام میں مبینہ طور پر ملوث ہے بچانے کیلئے اُلٹا کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ یونیورسٹی کے کئی پروفیسرس، اساتذہ اور ملازمین نے ’سیاست‘ سے ربط پیدا کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونیورسٹی کے تمام اہم فیصلوں کی سی بی آئی جانچ ہونی چاہیئے تاکہ ایک منظم ٹولہ کو بے نقاب کیا جاسکے۔