اردو یونیورسٹی میں رمضان المبارک کا تقدس پامال

اسٹاف کو ایک گھنٹہ قبل آنے کی ہدایت، حکام کی مذہب بیزاری کا ثبوت، اوقافی اراضی پر مسجد کی تعمیر سے صاف انکار
حیدرـآباد۔/18جون، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کئی بار طشت از بام ہوچکی ہے اور ابھی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر یونیورسٹی اور سرکاری ادارہ کیلئے حکومت کے رہنمایانہ خطوط اور قواعد ہوتے ہیں لیکن سرکاری یونیورسٹی ہونے کے باوجود اردو یونیورسٹی ایک آزاد اور خانگی ادارہ کی طرح کام کررہی ہے۔ دیگر معاملات میں بے قاعدگیوں اور من مانی سے ہٹ کر رمضان المبارک جیسے مقدس مہینہ میں بھی یونیورسٹی حکام نے اپنی من مانی کا سلسلہ جاری رکھا۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر کے سرکاری اداروں کے علاوہ نیم سرکاری حتیٰ کہ خانگی اداروں میں ملازمین کو ڈیوٹیکے اوقات میں نرمی دی جاتی ہے لیکن مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے روایت کا بہانہ کر مسلم ملازمین کو نرمی کے بجائے مزید زحمت میں مبتلاء کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری اداروں اور دیگر یونیورسٹیز میں ملازمین کو ایک گھنٹہ قبل گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن یونیورسٹی نے اس سہولت کیلئے ملازمین کو ایک گھنٹہ قبل دفتر آنے کی شرط رکھی۔ اس طرح ملازمین کو سہولت کے بجائے مزید اذیت میں مبتلاء کرنے کی کوشش کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں ملازمین کی جانب سے بارہا نمائندگی کی گئی لیکن حکام کو کوئی پرواہ نہیں۔ یونیورسٹی جو اردو کے نام کے پر قائم کی گئی اور جس میں مسلم ملازمین اور طلبہ کی اکثریت ہے اس کے باوجود یونیورسٹی کا انتظامیہ سہولت دینے کیلئے تیار نہیں۔ یونیورسٹی کے اوقات صبح 9:30تا شام 6بجے ہیں لیکن رمضان المبارک کے دوران یونیورسٹی صبح 8:30تا 4:30بجے تک کام کرے گی۔ اس طرح ملازمین کو مقررہ اوقات سے ایک گھنٹہ قبل دفتر پہنچنا پڑے گا۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس اقدام کے ذریعہ رمضان المبارک میں بھی ملازمین اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھارہے ہیں۔ یونیورسٹی میں ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے معاملہ میں اسکامس کی طویل فہرست ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے حکام مسلم ملازمین کو رعایت نہ دیتے ہوئے اپنے آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اداروں میں بھی مسلم ملازمین کو رمضان المبارک کے دوران رعایت دی جاتی ہے لیکن اردو یونیورسٹی نے اس منفرد فیصلہ کے ذریعہ اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ چونکہ یونیورسٹی میں اہم عہدوں پر فائز افراد کا دین اور اسلام سے بہت کم واسطہ رہا لہذا وہ رمضان المبارک کی اہمیت اور اس کے تقدس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انچارج وائس چانسلر خواجہ محمد شاہد کی منظوری سے انچارج رجسٹرار پروفیسر رحمت اللہ نے اوقات کے بارے میں سرکیولر جاری کیا۔ اس بارے میں جب انچارج رجسٹرار سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں کئی برسوں سے اسی طرح کی روایت برقرار ہے اور رمضان المبارک کے دوران یہی اوقات رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے ذریعہ یونیورسٹی کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف موثر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روایت کے مطابق اوقات سے متعلق سرکیولر جاری کیا گیا اور ان اوقات پر عمل کرنے میں کسی کو شکایت بھی نہیں ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آیا ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے نمائندوں سے اس سلسلہ میں کوئی مشاورت کی گئی تو رجسٹرار کا کہنا تھا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کئی برسوں سے ان ہی اوقات کی روایت چل رہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 200ایکر اوقافی اراضی پر محیط اردو یونیورسٹی میں باقاعدہ کوئی مسجد نہیں ہے۔ اس بارے میں جب کبھی وائس چانسلرس سے نمائندگی کی گئی تو انہوں نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔ مسجد کی عدم موجودگی کے بارے میں پوچھے جانے پر انچارج رجسٹرار کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں مذہبی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں نماز گاہ موجود ہے لیکن باقاعدہ مسجد کی تعمیر ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی سرکاری ہے اور اسے مسلم یا اقلیتی یونیورسٹی کا درجہ حاصل نہیں لہذا مسجد تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کی تعمیر کی صورت میں دیگر مذاہب کی جانب سے بھی عبادت گاہوں کی تعمیر کیلئے اصرار کیا جائے گا۔ یونیورسٹی کی اراضی وقف ہونے کے بارے میں انچارج رجسٹرار کا تبصرہ تھا کہ ہمیں آندھرا پردیش حکومت نے یہ اراضی الاٹ کی ہے اور اس کے وقف ہونے یا نہ ہونے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر نے اس اراضی کی نشاندہی بھی نہیں کی تھی بلکہ حکومت نے اسے حوالے کیا۔ جامعہ ملیہ اور علیگڑھ یونیورسٹیز میں مساجد کی موجودگی کا حوالہ دینے پر انچارج رجسٹرار نے کہا کہ یونیورسٹیز کے قیام سے قبل ہی شاید وہاں مساجد موجود تھیں۔