انچارج وائس چانسلر خود اردو سے ناواقف، شمالی ہند کے مافیا کا غلبہ،سابق وائس چانسلر کا کنٹرول برقرار
حیدرآباد ۔ 23 ۔ جولائی(سیاست نیوز) اردو کی ترقی اور ترویج کے مقصد سے حیدرآباد میں قائم کی گئی ملک کی پہلی قومی اردو یونیورسٹی کی زبوں حالی اہل اردو پر عیاں ہے۔ یونیورسٹی اپنے قیام کے مقاصد کی تکمیل میں ابھی تک ناکام ہے جس کا اعتراف خود مرکزی حکومت کے ذمہ داروں نے کیا ہے۔ یوں تو یونیورسٹی کے زوال کے لئے کئی عناصر اور عوامل ذمہ دار ہیں لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز شخص خود ہی اردو سے ناواقف ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب یونیورسٹی کا سربراہ خود اردو سے ناواقف ہو تو پھر کس طرح اس یونیورسٹی کی ترقی اور اردو زبان کے فروغ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ نئی دہلی کے سیاسی حلقوں میں اثر و رسوخ کے ذریعہ عہدے حاصل کرنے والے افراد پر مشتمل شمالی ہند کا منظم مافیا اردو یونیورسٹی پر عملاً قابض ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ مافیا کسی نہ کسی طرح اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کی کوشش کر رہا ہے اور افسوس کہ بعض مقامی مفاد پرست عناصر ان کی پاپوش برداری میں مصروف ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو خود عہدوں کی اہلیت نہیں رکھتے لہذا اپنی ملازمت کو بچانے کیلئے شمالی ہند کے مافیا کی مدد کر رہے ہیں۔ اردو یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر خواجہ محمد شاہد کے پروفیسر کی حیثیت سے تقرر پر کئی سوال اٹھائے گئے کیونکہ ان کی سرویس میں کبھی بھی وہ راست طور پر تدریس سے وابستہ نہیں رہے ۔ تاہم ان کے سابق سرپرست نے کسی طرح انہیں پروفیسر کے عہدہ پر فائز کردیا۔ انچارج وائس چانسلر کی حیثیت سے موصوف دو ماہ سے زائد عرصہ سے برقرار ہے لیکن ان کی اردو دانی کی حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب انہوں نے اپنی دستخط سے ایک مکتوب سیاست کو روانہ کیا۔ اس مکتوب میں زبان و بیان کی غلطیاں تو بے شمار ہیں لیکن عملے کی بھی کئی بھیانک غلطیاں پائی گئی۔ اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر جو پروفیسر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، اگر وہ خود اردو کے بنیادی عملے سے ناواقف ہوں تو پھر یونیورسٹی کا کیا ہوگا ، بہتر طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ 5 صفحات پر مشتمل اس مکتوب کو یقینی طور پر انچارج وائس چانسلر نے پڑھ کر روانہ کیا ہوگا۔
اگر مان لیا جائے کہ کسی اور نے یہ خط تحریر کیا اور وائس چانسلر نے صرف دستخط کئے ، پھر بھی کیا انہوں نے مکتوب کے متن کو دیکھے بغیر ہی اسے روانہ کر دیا؟ انچارج وائس چانسلر کی اردو دانی کا اندازہ صرف ایک لفظ سے ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے ایک مقام پر لفظ ’’امداً ‘‘ کا استعمال کیا جبکہ صحیح املا ’’عمداً‘‘ ہے۔ انچارج وائس چانسلر نے اپنے مکتوب میں سیاست جانب سے یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں کے سلسلہ میں کئے گئے انکشافات پر راست طور پر کوئی وضاحت نہیں کی۔ تاہم صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یونیورسٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ انہوں نے جن امور کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا، اس کا انکشاف آئندہ کیا جائے گا۔ اسی دوران یونیورسٹی کے کئی اہم عہدوں پر فائز شخصیتوں نے سیاست سے ربط قائم کرتے ہوئے انچارج وائس چانسلر کی من مانی اور سابق وائس چانسلر کی کٹھ پتلی کی طرح کام کرنے کی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج بھی یونیورسٹی پر سابق وائس چانسلر کا کنٹرول ہے جو دہلی میں اپنے سیاسی آقاؤں کی مدد سے اپنی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں۔ دراصل انچارج وائس چانسلر ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہے
اور یونیورسٹی کے اہم شعبہ جات کا ریموٹ کنٹرول ابھی بھی سابق وائس چانسلر کے ہاتھ میں ہے۔ باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا کہ گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے ایک پر وفیسر کو پولیس کارروائی سے بچانے کیلئے انچارج وائس چانسلر کافی متحرک ہوچکے ہیں۔ ان کے دباؤ کے تحت یونیورسٹی کی ٹیچرس اسوسی ایشن نے پولیس کارروائی کا سامنا کرنے والے پروفیسر سے اظہار یگانگت کیلئے جلسہ منعقد کیا۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مذکورہ پروفیسر کا تقرر خود قواعد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ وہ اردو داں نہیں ہے اور انگریزی میں تدریس کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کے خلاف پولیس میں شکایت کی گئی اور پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ معاملہ خالصتاً قانونی ہے ، اس کے باوجود ٹیچرس اسوسی ایشن نے اظہار یگانگت کیا جبکہ حالیہ عرصہ میں یونیورسٹی کے دو سینئر اسٹاف ممبرس کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت کارروائی کی گئی لیکن ٹیچرس اسوسی ایشن نے حقیقت جاننے کے باوجود ان کی تائید توکجا اظہار یگانگت بھی نہیں کیا۔ یونیورسٹی کے ملازمین ٹیچرس اسوسی ایشن کے اس دوہرے معیار پر ناراض ہیں۔ ٹیچرس کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے افراد کو اس بات کی فکر نہیں کہ کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم افراد نے کس طرح عیدالفطر منائی ہوگی۔