اربن ڈیولپمنٹ کا بحران

ڈالی ہے ہم نے خواب کی تعبیر کی کُمند
ہم وہ نہیں جو وقت سے مایوس ہوگئے
اربن ڈیولپمنٹ کا بحران
قومی سطح پراپنی تاریخی اہمیت رکھنے والی کانگریس نے علاقائی سطح پر عارضی فوائد کے لئے کچھ غلط اقدامات کئے ہیں تو آنے والے لوک سبھا انتخابات میں عوام اسے سزا دیں گے ۔ تلنگانہ کے قیام کے لئے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جس طریقہ سے بل منظور کیاگیا اس سے آگے چل کر تلنگانہ عوام کے لئے قانونی اور دستوری تنازعہ کھڑا کردیئے جائیں تو پھر کانگریس کی ووٹ بنک پالیسی کا خمیازہ عوام کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس میں شک نہیں کہ تلنگانہ کے قیام سے تلنگانہ عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے لیکن کانگریس اور بی جے پی نے اس بل کی منظوری کے لئے ایوان پارلیمنٹ میں جن دستوری اصولوں کو بالائے طاق رکھا اس پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور تلنگانہ عوام کو یہ طعنہ سننے کو مل سکتا ہے کہ کانگریس نے انھیں استعمال کرنے آج یہ سب کچھ کیا ہے ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد بھی اگر عوام خالی ہاتھ رہ جائیں تو اس میں قصور کس کا ہوگا ۔ تحریک سے وابستہ پارٹیاں ، تنظیموں اور انفرادی شخصیات فی الحال اپنے مطالبہ کی یکسوئی کا جشن منانے میں مصروف ہے ۔ سیما اندھرا کے قائدین اتنے احمق نہیں ثابت ہوں گے جتنا کے سمجھا جارہا ہے ۔ مرکز نے ان کے لئے بے شمار مراعات کا اعلان کیا ہے تو تلنگانہ کے حق میں کیا آئے گا ۔ آیا تلنگانہ کو اس کے قائدین اور عوام کی خواہش کی محض چادر میں لپیٹ کر سلادیا جائے گا ، یہ سوال آگے چل کر جواب طلب ہوگا ۔ مرکزی حکومت نے تلنگانہ کے قیام کی کوششوں میں اصل مسئلہ حیدرآباد کے موقف کو غیرواضح کردیاہے ۔ سیما آندھرا والوں کے لئے دارالحکومت کے انتخاب سے قبل ہی تلنگانہ کا قیام آئندہ کے لئے ایک سلگتا مسئلہ چھوڑا گیا ہے ۔ حیدرآباد کو 10 سال تک مشترکہ دارالحکومت بنانے کا مقصد یہی ہے کہ مرکز اس قابل ہی نہیں تھا کہ وہ دوسری ریاست کے لئے دارالحکومت کا انتخاب کرکے اس کو ترقی دے سکے ۔ مرکزی حکومت نے برسوں کی حکمرانی کے دوران بھی کسی ریاست میں شہروں کی ترقی پر دھیان نہیں دیا جس کے نتیجہ میں آج سیما آندھرا کے لوگوں کو ایک اچھے شہر کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑے گا ۔ اگر شہری ترقی کے اصولوں پر دیانتداری سے کام کیا جاتا تو آج آندھراپردیش میں بھی کئی شہر ترقی کا شاندار نمونہ ہوتے ۔ مرکز کی شہری ترقی وزارت کی موجودگی کے باوجود کسی بھی شہر کو اس خطوط پر ترقی نہیں دی گئی جس کو ایک اہم اور مثالی شہر قرار دیا جاسکے ۔ تلنگانہ میں صرف حیدرآباد کو لیکر ہر ایک میں دلچسپی کی وجہ سے یہاں کلیہ انفراسٹرکچر ترقی ہے مگر یہ شہر بھی عالمی یا قومی معیارات سے بہت پیچھے ہے ۔ اربن ڈیولپمنٹ کے نام پر سالانہ جاری ہونے والا بجٹ کس مد میں خرچ ہوا اس کا حکومت سچائی سے حساب نہیں کرے تو اس کی جھوٹ کی قلعی کھل جائے گی ، آ

ج حیدرآباد پر دعویٰ کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ اس شہر کی ترقی کے نام پر سیاستدانوں نے کس طرح لوٹ کھسوٹ کی ہے ۔ گنجان آبادیوں کو کھلی چھوٹ دے کر سلم بستیوں کو وجود میں لانے والا شہری نظم و نسق اور مقامی سیاستدانوں کو اس کا قصوروار گردانا جارہا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔ تلنگانہ کے قیام کا اصل عمل جب شروع ہوگا اس کے بعد حیدرآباد کی ترقی ان نئے ہاتھوں میں ہوگی جنھوں نے اسے تلنگانہ کا اٹوٹ حصہ مان کر اس کی حفاظت کی تھی لیکن آئندہ 10سال تک مشترکہ دارالحکومت کی حیثیت سے اسے جن مسائل کا شکار ہونا پڑے گا اس کا اندازہ نہیں کیا گیاہے۔ کانگریس نے بحیثیت قومی پارٹی ریاستی سطح پر عوام کے خوب ووٹ حاصل کئے لیکن انھیں سہولتیں فراہم کرنے کے معاملہ میں انصاف نہیں کیا ۔ تلنگانہ میں سوائے حیدرآباد کی معمولی ترقی پر دھیان دینے کے کسی دوسرے ضلع کو ترقی دینے کی جانب توجہ نہیں کی گئی۔ تلنگانہ کے تمام اضلاع پسماندگی کی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح آندھراپردیش کے ماباقی اضلاع میں بھی معیاری انفراسٹرکچر کا فقدان ہے ۔ اب سیما آندھرا کے لئے نیا دارالحکومت تلاش کرنا اور اس پر روپیہ خرچ کرنے تک دیگر شہروں کو نظرانداز کردیا گیا تو صورتحال پہلے سے زیادہ ابتر ہوگی لہذا تلنگانہ حاصل کرنے کے بعد نئی حکومت اور ان کے ذمہ داروں کو اپنے شہر ، اضلاع ، ٹاؤنس کی ترقی کے لئے یکساں دھیان دینے کی ضرورت ہوگی ۔ مرکز سے اپنے حصہ کا فنڈحاصل کرنا ان کی حکمرانی کی صلاحیتوں کا متقاضی ہوگا ۔ نئے تلنگانہ میں اگر کانگریس کو اقتدار مل جائے تو اس کا یہ اولین فرض ہوگا کہ وہ اس علاقہ کے ہر ضلع اور ٹاؤن کو عالمی اصولوں کے تحت ترقی دے ۔ اگر کانگریس کے بجائے تلنگانہ پارٹی کو اقتدار کاموقع دیا جاتا ہے تو اس کاعین مقصد یہی ہونا چاہئے کہ تلنگانہ جس مقصد کے تحت حاصل کیا گیا ہے اس خطوط پر ترقی دی جائے اور اربن ڈیولپمنٹ کے اصولوں پرسختی سے عمل کیا جائے ورنہ تلنگانہ ملنے کے بعد بھی برسوں تک کوئی کام نہیں کیا گیااور یہاں کے اضلاع ، دیہی علاقہ اور پسماندگی کا شکاربنادیئے جائیں تو حصول تلنگانہ کا مقصد فوت ہوجائے گا ۔ یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا کان پکڑ کر اُن کی ذمہ داریوں کی جانب توجہ دلائیں۔

اپنی سمت کا تعین …

بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے امکانات کے بارے میں مختلف قیاس آرائیوں کے درمیان بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے مسلمانوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ اور ان کی حلیف پارٹیاں مل کر مودی کو اقتدار تک پہونچنے نہیں دیں گے ۔ بی جے پی کو اسو قت اپنے لیڈر کی مقبولیت کا نشہ ہے اس لئے وہ طاقت کے توازن کا غلط اثر لے رہی ہے ۔ مسلمانوں کو مودی کے تعلق سے ڈرانے یا اس خطرے سے آگاہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بی جے پی اس وقت ایسی کیفیت کا شکار ہے کہ اسے اپنے ’’امراض‘‘ کی ہی خبر نہیں تو پھر وہ ’’علاج ‘‘ کس طرح کراسکے گی ۔ مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے سے کامیابی کا یقین ہونا الگ بحث ہے اور اقتدار تک پہونچنے کا خواب دیکھنا الگ موضوع ہے ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی حکومت کے استعفیٰ کے بعد لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں سے بی جے پی اور مودی کے امکانات پر ضرب لگی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے ہی دہلی میں بی جے پی کو اقتدار سے روکا تھا ۔ یہ کس طرح ممکن ہوا اس کو جاننے کی سیاسی ماہرین نے سائنٹیفک کوشش ضرور کی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے ابھرنے کی وجوہات کیا ہیں ؟ اسباب کیا ہیں؟ ، عوامل کیا ہیں ؟ اس پر غور کئے بغیر بی جے پی کے امیدوار اپنے جلسوں اور تقاریر کا رخ صرف دروغ گوئی کی سمت موڑتے رہیں گے تو عوام ووٹ دینے کے دن کس طرح فیصلہ کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا ۔ گجرات فسادات کے بعد ہر موقع پر مسلمانوں کو خائف کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن مسلمانوں نے کسی بھی فرد سے ڈرکر جینا نہیں سیکھا ہے

بلکہ گجرات یا بابری مسجد شہادت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں نے خود پہلے سے زیادہ مضبوط اور باہمت بنالیا ہے ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے لئے مضبوط قیادت وجود میں آئے ۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمان بعض سیاستدانوں اور قومی پارٹیوں کے فریب کا شکار ہوکر خسارہ سے دوچار ہوئے ہیں ۔ اس لئے بعض اوقات انھیں ووٹ دینے کی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ اب مسلمانوں کو ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے آئندہ انتخابات تک اپنے اہداف اور سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں مایاوتی یا ان کی طرح کے سیکولر قائدین کو مدد حاصل ہوسکے ۔