اخلاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

ڈاکٹر محمد کاظم حسین نقشبندی
اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام و رسولان عظام انسانیت کے لئے نمونہ ہوتے ہیں، ان کا ہر عمل لوگوں کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لئے انبیاء کرام زندگی کے تمام شعبوں میں اعلی ترین معیار پر قائم رہتے ہیں۔ ان کی عبادتیں خشوع و خضوع کا نمونہ ہوتی ہیں، ان کے معاملات راست گوئی اور پاکیزگی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی معاشرت حسن سلوک، سماج کے مختلف طبقات کے ساتھ برتاؤ اور حقوق کی ادائیگی کی بہترین مثال ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ اخلاق کی اعلی ترین سطح پر فائز ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں مختلف انبیاء کرام اور ان کی اقوام کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں۔ ان واقعات میں قوموں کی انبیاء کرام کے ساتھ بدسلوکی ، بدزبانی اور اس کے مقابلہ میں ان پاکیزہ نفوس کی طرف سے انتہائی درجہ کا تحمل و برد باری اور خوش گفتاری کا ذکر ملتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ بلند اخلاق کی اعلی ترین سطح پر تھے، اسی لئے قرآن مجید میں آپﷺ سے متعلق ارشاد ہوا کہ ’’بے شک آپ اعلی اخلاق کے مالک ہیں‘‘۔ (سورۃ القلم)
اکثر اخلاقی کمزوریوں کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ انسان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ وہ گفتگو تو بہت اونچی کرتا ہے، لیکن عملی طورپر بہت نیچی سطح پر ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قول و فعل کا تضاد نہیں تھا، آپﷺ لوگوں کو جس بات کی دعوت دیتے، اسی پر آپ کا عمل ہوتا، اسی لئے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا کہ ’’اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ سراپا قرآن تھے‘‘۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی اور نہ ہی کبھی کسی کے حق میں بددعا کی۔ عفو و درگزر کا باب آپﷺ کے یہاں بہت وسیع تھا اور دوستوں و دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا۔ جب مکہ فتح ہوا تو وہ سارے لوگ آپﷺ کے سامنے موجود تھے، جنھوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا، آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جسمانی اذیتیں پہنچائی تھیں، آپﷺ کو برا بھلا کہا تھا، معاشی ناکہ بندی کی تھی اور آپﷺ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کے لئے ترسایا تھا، لیکن آپﷺ نے ان سبھوں کو بہ یک جنبشِ زبان معاف فرمادیا، یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انھیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتل حضرت وحشی، ان کا کلیجہ چبانے والی حضرت ہندہ، بدترین دشمن ابوجہل کے بیٹے عکرمہ اور غزوۂ احد میں و غزوہ خندق میں مشرکین کی قیادت کرنے والے حضرت ابوسفیان، سبھوں کو آپﷺ نے دامن عفو میں پناہ دی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری تھا۔ آپﷺ مقام نبوت پر فائز ہیں اور پورا جزیرہ عرب آپ کے قدموں میں ہے، لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا کہ گھریلو کام خود انجام دیتے اور جب کھانے کے لئے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ اور فرماتے ’’میں اس طرح کھاتا ہوں، جیسے غلام کو کھانا چاہئے‘‘۔ تواضع کا سبب تھا کہ بعض صحابہ کرام جب دیگر علاقوں میں گئے تو دیکھا کہ لوگ اپنے سرداروں کو سجدہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے آپﷺ سے سجدہ کی اجازت چاہی اور عرض کیا کہ ’’آپ تو ان سے زیادہ مسجود بننے کے مستحق ہیں‘‘۔ جس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو بیوی کو اجازت ہوتی کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے، لیکن خدا کے سوا کسی کے لئے سجدہ روا نہیں‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین فرماتے اور خود بھی اس پر عمل کرتے۔ سخاوت و فیاضی کا یہ حال تھا کہ کوئی سائل آپ کے در سے واپس نہ جاتا۔ اگر اپنے پاس موجود نہ ہوتا تو دوسروں سے قرض لے کر دیتے۔ اگر کچھ درہم و دینار بچ رہتے تو جب تک تقسیم نہ فرمادیتے بے چین رہتے۔

انسانی برابری اور مساوات کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے۔ ایفائے عہد کا آپﷺ کو بڑا لحاظ تھا۔ صلح حدیبیہ میں جو شرطیں پائیں، آپﷺ ان پر سختی سے قائم رہے۔ بعض مظلوم مسلمانوں کی قابل رحم حالت دیکھ کر بھی آپﷺ نے وعدہ خلافی گوارا نہ کیا۔ اعلان نبوت سے قبل ایک صاحب سے معاملہ ہوا تو وہ آپﷺ کو بٹھاکر چلے گئے کہ آکر حساب کردیتا ہوں، مگر ان کو خیال نہ رہا۔ تین دن کے بعد آئے تو آپﷺ کو اسی جگہ موجود پایا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’تین دن سے یہیں تمہارا انتظار کر رہا ہوں‘‘۔ الغرض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی فضائل و اخلاق کا اعلی نمونہ تھی۔