اختلاف دین کی وجہ وراثت نہیں

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید {مسلمان} نے ایک غیر مسلم یعنی کرسچن عورت سے عقد کرلیا اس کے بطن سے دو لڑکے اور تین لڑکیاں تولد ہوے۔ عورت کرسچن ہی تھی لیکن اولاد ابتدائً مسلمان تھی بعدہٗ یہ تمام اولاد کرسچن مذہب اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ بعد زن و شوہر میں اختلاف ہوگئے زید نے اس غیر مسلم عورت کو طلاق دیدیا۔ اس عورت کے بطن سے پیدا ہونیوالے لڑکے لڑکیاں کرسچن مذہب اختیار کرکے اُسی مذہب کے افراد سے شادیاں کرلیں۔ زید نے بعد طلاق ایک مسلم خاتون ہندہ سے عقد شرعی کرلیا اس کا مہر بوقتِ عقد {۱۲۵} روپے مقرر کیا۔ ہندہ کے بطن سے ایک فرزند {بکر} تولد ہوا زید ہندہ کی فرماں برداری اور خدمت سے متاثر ہو کر بذریعہ تحریر مہر میں مزید پانچ ہزار روپے کا اضافہ کیا۔اب سوال یہ ہے کہ زید کے انتقال کے بعد زید کی جائداد میں مطلقہ کرسچن عورت اور اسکی بطنی اولاد شرعاً وارث ہوسکتی ہے یا نہیں۔ زید کے شرعی وارث کون قرار پائیں گے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں زید جو مسلمان ہے اسکی وفات کے بعد مطلقہ وارث نہیں رہتی، البتہ مطلقہ کرسچن عورت کی اولاد اگر مسلمان رہتی تو وارث ہوسکتی تھی اب جبکہ وہ اولاد بھی مرتد ہوکر کرسچن مذہب اختیار کرلی ہے تو وہ اپنے مسلمان باپ کی شرعاً وارث قرار نہیں پاتی۔ شریفیہ شرح سراجیہ کے فصل فی موانع الارث میں ہے {المانع من الارث اربعۃ … و} الثالث {اختلاف الدینین} فلا یرث الکافر من المسلم اجماعاً فأما المسلم یرث عندنا من المرتد مع أنہ لا یرث من المسلم۔پس زید کے انتقال کے بعد تمام مترو کہ کے بعد ادائی حقوق متقدمہ علی المیراث ہندہ اور بکر مستتحق رہیں گے۔

مجنون کے فسخ نکاح کا شرعی حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا عقد مسمی بکر کے ساتھ عمل میں آیا۔ عقد کے تیسرے روز سے بکر دماغی فتور میں مبتلا ہوگئے اور سلسلہ بڑھتے بڑھتے پاگل ہوگئے چنانچہ انکو حکومت کی طرف سے دماغی دواخانہ میں شریک کروادیا گیا جہاں تین ماہ کے علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہ ہوسکے بکر کے والد صاحب اس شبہ میں کہ بکرکو جادو یا سایہ وغیرہ کا اثر ہے اپنے مکان لالئے اور اس کا علاج ہوتا رہا لیکن اسکو بھی تخمیناً تین ماہ کا عرصہ گزرچکا لیکن وہ صحت یاب نہیں ہوے۔
اب ہندہ فسخ نکاح کی خاطر خلع لینا چاہتی ہے کیا بکر کے والد صاحب خلع کے مجاز ہوسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو فسخ نکاح کیلئے شرعاً کیا صورت اختیار کی جائے ؟
جواب : شوہر نکاح کے بعد مجنون ہوجائے تو عورت کو چاہئے کہ وہ قاضی {مسلم حاکم عدالت} کے پاس رجوع ہو۔ اور قاضی کو چاہئے کہ وہ دیکھے کہ شوہر کا مرض کس طرح کا ہے۔ شوہر کا مرض اگر ایسا ہے کہ کبھی افاقہ ہوتا اور کبھی پاگل ہوجاتا ہے تو بربنائے درخواست زوجہ شوہر کو ایک سال کی مہلت دے اگر اس مہلت میں وہ تندرست ہوجائے تو فسخ نکاح کی ضرورت نہیں ورنہ بعد مرور مدت ایک سال زوجہ کو اختیار دے کہ وہ اسی کے نکاح میں رہے یا نکاح فسخ کرالے۔ اگر زوجہ فسخ کو اختیار کرے تو قاضی {مسلم حاکم عدالت} دونوں کے درمیان نکاح فسخ کردے۔اور اگر شوہر ہمیشہ کا مجنون ہے تو قاضی {مسلم حاکم عدالت} کو حق ہے کہ وہ بغیر مدت دیئے زوجہ کو اختیار دیدے اور زوجہ فسخ کو اختیار کرے تو فی الفور نکاح فسخ کردے۔ فتاوی عالمگیری جلد ۱ باب العنین میں ہے قال محمد رحمہ اﷲ تعالیٰ ان کان الجنون حادثاً یؤجل سنۃً کالعنۃ ثم یخیّر المرأۃ بعد الحول اذا لم یبرأ وان کان مطبقاً فھو کالجب وبہ نأخذ کذا فی الحاوی القدسی۔ اسی باب میں ہے لووجدت المرأۃ زوجھا مجنونا خیّرھا القاضی للحال ولا یؤجّل کذا فی فتاوی قاضی خان۔پس صورت مسئول عنہا میں بکر و ہندہ کے درمیان خلع کے لئے بکر کے والد مجاز نہیں۔ البتہ ہندہ قاضی {مسلم حاکم عدالت} کے پاس رجوع ہوکر حسبِ تفصیل بالا اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں صرف قاضی کو ہی تفریق کا حق ہے۔ فقط واﷲ تعالیٰ اعلم