احکامات کی خلاف ورزی پر جرمانے اور فوجداری مقدمات ، پرنسپل سکریٹری وزارت بلدی نظم و نسق
حیدرآباد۔29جنوری(سیاست نیوز) شہر میں موجود تمام غیرمجاز اور بغیر اجازت لگائے گئے ہورڈنگس کو مالکین جائیداد ‘ اشتہاری ایجنسیاں رضاکارانہ طور پر فوری نکال دیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں غیر مجاز ہورڈنگ رکھنے والی جائیدادوں کے مالکین کے خلاف بھاری جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ فوجداری مقدمات درج کروائے جائیں گے۔ مسٹر اروند کمار پرنسپل سیکریٹری وزارت بلدی نظم و نسق نے آج مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیداروں کے ہمراہ جائزہ اجلاس منعقد کیا اور انہیں ہدایت دی کہ وہ اس مسئلہ پر سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے شہر میں موجود تمام غیر مجاز ہورڈنگس کو ہٹائیں اور جن جائیدادوں پر غیر مجاز ہورڈنگس موجود ہیں ان کے خلاف صرف جرمانہ عائد نہ کیا جائے بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات عائد کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن میں شکایات درج کروائیں۔ مسٹر اروند کمار نے مالکین جائیداد سے اپیل کی کہ وہ اپنے طور پر ہورڈنگس کو ہٹا دیں تاکہ انہیں کسی قسم کی قانونی کاروائی سے پریشان نہ ہونا پڑے۔ پرنسپل سیکریٹری وزارت بلدی نظم و نسق نے بتایا کہ سابق میں غیر مجاز ہورڈنگس کے سبب ہونے والے حادثات کے باعث یہ احکام جاری کئے جاچکے ہیں لیکن ا س کے باوجود بعض ایجنسیوں اور مالکین جائیداد کی جانب سے غیر مجاز طور پر ہورڈنگس کی تنصیب عمل میں لائی جا رہی ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ غیر مجاز ہورڈنگس نہ صرف شہر کی خوبصورتی کو متاثر کرنے کا سبب ہیں بلکہ ان کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ جائزہ اجلاس کے دوران عہدیداروں نے مسٹر اروند کمار کو شہر میں اب تک غیر مجاز ہورڈنگس اور بیانرس نکالنے کے سلسلہ میں کئے گئے اقدامات سے واقف کروایا ۔ مسٹر ادویتھ کمار سنگھ ایڈیشنل کمشنر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے بتایا کہ شہر میں 2011کے بعد سے اب تک کسی بھی نئے ہورڈنگ کو اجازت فراہم نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کسی یونی پول کی تنصیب کی اجازت فراہم کی گئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ 2011سے قبل جو اجازت نامہ جاری کئے گئے تھے ان اجازت ناموں کی سالانہ تجدید کی جا رہی ہے اور اس تجدید کے عمل کے لئے مالکین جائیداد کے این او سی کے علاوہ عمارت کی مضبوطی کی رپورٹ وصول کی جا رہی ہے ۔ جو مالکین جائیداد عمارت کی مضبوطی اور این او سی پیش کرتے ہوئے تجدید کی درخواست داخل کر رہے ہیں ان کے اجازت ناموں کی تجدید کی جارہی ہے جبکہ نئے اجازت ناموں کی فراہمی کا سوال ہی نہیں ہے۔