اترپردیش میں بی جے پی کو ’’ کرائے کے مسلم قائدین ‘‘ پر پورا بھروسہ

مسلم ووٹوں کی تقسیم کے منصوبہ پر انتہائی خاموشی سے عمل ، اسمبلی انتخابات اترپردیش کے مسلمانوں کی حقیقی آزمائش
نئی دہلی ۔ یکم ۔ اپریل : ( سیاست ڈاٹ کام ) : یو پی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے لیے بی جے پی ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی ابھی سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں جب کہ کانگریس یو پی اسمبلی میں اپنی موجودہ نشستوں کی تعداد میں اضافہ کی خواہش رکھتی ہے ۔ ان مجوزہ انتخابات میں بی جے پی ، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کی تمام نظریں مسلم اور دلت ووٹرس پر مرکوز ہے ۔ مایاوتی کی بی ایس پی اس مرتبہ اقتدار پر فائز ہونے کی بھر پور کوشش کررہی ہے ۔ پارٹی سربراہ مایاوتی نے مسلم رائے دہندوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ وہ سماج وادی پارٹی پر بھروسہ نہ کریں جو مظفر نگر فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے ان کی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت ریزی کرنے والے درندوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہی مایاوتی کے مطابق اکھلیش یادو حکومت نے ریاست میں بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو مجوزہ اسمبلی انتخابات میں چوکس رہتے ہوئے بی ایس پی کے حق میں متحدہ ووٹوں کا استعمال کرنا ہوگا ۔ مایاوتی نے مسلمانوں کو جو مشورہ دیا ہے اور ان کے سامنے جو حقائق پیش کئے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں ۔ یو پی کی جو موجودہ فرقہ وارانہ صورتحال ہے اور پچھلے دو تین برسوں سے فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی مذموم مہم چلائی ہے ۔ اس سے سماج وادی پارٹی کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر مسلمان اس سے دور ہوجائیں تو یو پی میں اس کا بیڑا غرق ہوجائے گا ۔ ایسے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کو انتخابی فائدے کے لیے خوش کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ دوسری جانب بی جے پی قیادت کو انتخابی حکمت عملی تیار کرنے والوں نے بطور خاص مسلم رائے دہندوں کے ووٹس تقسیم کرنے پر زور دیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے بی جے پی قیادت پر واضح کردیا ہے کہ بی جے پی قائدین فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے گریز کریں اس کے لیے مفاد پرست مسلم قائدین اور جماعتوں کو خریدا جائے ۔ ان کی زبانوں سے ہی ایسے بیانات کی اجرائی عمل میں آئے جس سے ہندو ووٹ متحد اور مسلم ووٹ بکھر جائے اس لیے کہ مسلمان متحدہ ووٹ کا استعمال کریں تو اس کا فائدہ بی ایس پی یا پھر ایس پی کو ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس مرتبہ مسلمانوں کا جھکاؤ بی ایس پی کی طرف دکھائی دے رہا ہے ۔ بی جے پی جانتی ہے کہ 2004 میں مسلمانوں کے باعث ہی اترپردیش کے 80 پارلیمانی حلقوں میں سے اسے صرف 10 پر کامیابی حاصل ہوسکی تھی جب کہ سماج وادی پارٹی نے 35 ، بی ایس پی نے 19 ، کانگریس نے 9 اور دیگر جماعتوں نے 7 حلقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے ۔ 2009 کے عام انتخابات میں بھی مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہ ہونے کے باعث ہی بی جے پی 10 نشستوں پر ہی کامیاب ہوسکی تھی ۔ بی ایس پی نے 20 ، انڈین نیشنل کانگریس نے 21 ، سماج وادی پارٹی نے 23 کے علاوہ آئی این ایل ڈی نے 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی ۔ پچھلے انتخابات کا جائزہ لینے کے بعد ہی بی جے پی قیادت نے بتایا جاتا ہے کہ مسلم رائے دہندوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسلم ووٹوں کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نتیجہ میں حیدرآباد ، دہلی اور خود اترپردیش کی بعض مسلم جماعتوں اور ان کے قائدین کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں ۔ بی جے پی ذرائع کے مطابق اترپردیش میں بی جے پی کا اقتدار بہت ضروری ہے کیوں کہ اس سے آنے والے برسوں میں ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اسی ذرائع کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی نے جن مسلم قائدین اور جماعتوں سے خفیہ مفاہمت کی ہے ان میں سے کچھ مسلم ووٹ تقسیم کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔ بہر حال اب اترپردیش کے مسلم رائے دہندوں کی سیاسی بالغ النظری کی آزمائش ہے ۔ اس آزمائش میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔۔