اب عراق پر بمباری

وابستہ ہوگئی تھیں کچھ اُمیدیں آپ سے
اُمیدوں کا چراغ بجھانے کا شکریہ
اب عراق پر بمباری
عالمی سطح پر صرف مسلم ممالک ہی مغربی دنیا کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں ۔ فلسطین میں اسرائیلی بمباری کے بعد اب عراق میں بمباری شروع کردی گئی ہے تو اس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوں گے ۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے عراق کے مملکت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر حملے کرنے کی اجازت دے کر عراق کی خانہ جنگی صورتحال کو مزید نازک بنادیا ہے ۔ عراق میں کسی بھی قسم کی بیرونی فوجی مداخلت کا مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکے گا۔ امریکہ نے اب تک فوجی سطح پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تھا مگر اچانک عراق کے مملکت اسلامیہ کے مقامات پر بمباری پہلے سے ہی تباہ شدہ عراق کو مزید تباہی سے دہانے پر لے جائے گی ۔ عراق میں داخلی طور پر متصادم گروپس کو پرامن طریقہ سے قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ وہاں کی گروپ بندیوں اور حکمراں طاقتوں کے درمیان لڑائی کو ختم کرنے کیلئے عالمی سمجھداری کے مظاہروں کی ضرورت تھی۔ داعش کو اگر عراق میں ایک نیا مسئلہ سمجھا جارہا تھا اس سے نمٹنے کے طریقے بھی تلاش کئے جاسکتے تھے مگر امریکہ نے کافی دنوں کے انتظار کے بعد حملے کو ہی ترجیح دی ہے۔ عراق کی مسلح لڑائی سے راست طور پر امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ عراق میں آئی ایس آئی ایس ایک مضبوط گروپ بن کر ابھرا ہے تو اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے بجائے کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہئے تھی لیکن عراق کے شہریوں کو ایک ظلم سے نجات دلانے کیلئے دوسرا عذاب مسلط کرنے کی کوشش نا قابل قبول سمجھی جائے گی ۔ بدبختانہ بات یہ ہے کہ عراق کی حکومت ہو یا اس کی حمایت کرنے والی بیرونی طاقت نے اب بھی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ فوجی حربہ ہی سب کچھ ہے تو پھر امن کی توقع ترک کردینی پڑے گی ۔ اوباما کے فیصلہ سے عراق میں اقتدار کی لڑائی مزید شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ اوباما نے عراق میں شدت پسندوں کے خلاف ٹارگیٹیڈ آپریشن کو ہی مسئلہ کا حل متصور کیا ہے تو اس بارے میں اب تک انہوں نے خاموشی کیوں اختیار کی تھی۔ عراق سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد پھر دوبارہ اس کی فوجی طاقت فضاء سے ہی بم برسا رہی ہے تو ان حملوں کو آیا عراق میں امریکی فوج کی واپسی سمجھا جاسکتا ہے جبکہ اوباما نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ اب عراق کو امریکہ کی فوج نہیں بھیجی جائے گی ۔ امریکہ کو دنیا کے کسی بھی حصہ میں پیدا ہونے والے بحران کو دور کرنے میں ہر بار مداخلت کا حق نہیں ہے تو وہ عراق میں کس طرح حق جتا رہا ہے ۔ ناقابل فہم ہے امریکی جٹ طیاروں نے عراق کے شمالی علاقہ اربیل میں مملکت اسلامیہ کی آرٹیلری کو نشانہ بنایا ہے اس آرٹیلری کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ اسے کرد فورسز کے خلاف استعمال کیا جارہا تھا جو اربیل کا دفاع کررہے ہیں۔ صدر اوباما نے قبل ازیں کہا تھا کہ امریکہ مملکت اسلامیہ پر حملے نہیں کرے گا صرف امریکی مفادات کو خطرے کی صورت میں ہی ٹارگٹیڈ آپریشن شروع کیا جائے گا ۔ مگر اب اچانک امریکی مفادات کو خطرہ نہ ہونے کے باوجود بمباری کی جارہی ہے تو اسے سراسر ایک اور زیادتی قرار دیا جائے گا ۔ 2011 کے بعد سے امریکہ کی یہ پہلی فضائی کارروائی ہے عراق میں گذشتہ دو ماہ سے مملکت اسلامیہ کے اسلام پسندوں نے حکمراں طبقہ کے خلاف زبردست مہم شروع کی ہے ۔ اب امریکہ کی مداخلت سے یہاں مزید خونریزی ہوگی یہ حملے نسل کشی کی ایک اور بھیانک تصویر ابھاریں گے۔ بارک اوباما نے امریکی صدارتی انتخابات کیلئے اپنی امیدواری کے دوران یہ وعدہ کر کے امریکی رائے دہندوں سے ووٹ لیا تھا کہ عراق میں امریکی فوجی مداخلت کو ختم کیا جائے گا ان کی پہلی میعاد میں عراق میں متعین امریکہ کی کثیر فوج تو واپس طلب کرلیا گیا تھا جبکہ یہ فوج 2003 سے عراق میں تعینات تھی۔ گذشتہ 3 سال سے عراق کے داخلی معاملوں سے دور رہنے کے بعد امریکہ اب عراق کی صورتحال کے حوالے سے اپنی جنگی پالیسی کا احیاء کررہا ہے تو یہ خود اس کیلئے مسائل پیدا کردینے کا موجب بنے گی اور اوباما کو اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا ۔ سات سال پہلے کی اپنی انتخابی مہم کے دوران ان کے نظریہ اور آج کے عراق میں کافی فرق ہے ۔اس وقت امریکی فوج صرف اسلامی مملکت کے جنگجوں کو کردش دارالحکومت اربیل پر قبضہ کرنے سے روکنے کیلئے فضائی حملے کررہی ہے ۔ کرد علاقہ امریکہ کیلئے اہم حلیف علاقہ مانا جاتا ہے ۔ نسل کشی کی شدید مخالف کرنے والے صدر امریکہ اب اس کھیل کا حصہ بنتے جارہے ہیں تو انہیں آگے چل کر منفی نتائج کا سامنا کرنا پرے گا ۔ لیبیاء کے بعد عراق میں ان کی مداخلت اور آئندہ شام میں فوجی کارروائی کا بہانہ تراشا جائے گا تو عالم اسلام پر مغربی جنگوں کو مسلط کرنے کی پالیسی کا احیاء کئی افسوسناک اور المناک نتائج برآمد کرسکتا ہے۔
ایبولا وائرس :احتیاط ضروری
مغربی افریقہ سے پھیلنے والی بیماری ایبولا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے تنظیم عالمی صحت نے احتیاطی اقدامات پر زور دیا ہے ۔ یہ مرض بین الاقوامی ایمرجنسی کا متقاضی بن رہا ہے۔ وائرس کی شدت کے باعث نتائج بھی سنگین ہوسکتے ہیں۔ اگرچیکہ جان لیوا وائرس سے ہندوستان محفوظ ہے مگر مغربی افریقہ سے آنے والے مسافرین کے ذریعہ وائرس پھیل سکتا ہے لہذا ہندوستان کے تمام بین الاقوامی ایر پورٹس پر مسافرین کی مکمل تشخیص کے انتظامات کئے جانے چاہئے ۔ اس مرض کی انسداد کیلئے ماہرین ادویات کا پتہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ سعودی عرب نے اس سال حج کا ویزا دینے میں احتیاط برتی ہے ۔ افریقہ کے 3 ملکوں کو حج ویزا نہیں دیا گیا یہ وائرس لائیبریا،سیرا لیون میں سرگرم ہے یہاں عوام کی نقل و حرکت پر پابندی ہے ۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے ماہرین مرض کے پھیلاو کو غیر معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں کیوں کہ مغربی افریقہ میں اس وائرس نے 1000سے زائد افراد کو موت کی نیند سلادیا ہے ۔ دیگر ممالک میں وائرس کے پھیلنے سے کئی سنگین نتائج پیدا ہوں گے ۔ وائرس میں انسانی جسم کو کمزور بنانے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔لہذا تمام عالمی صحت اداروں کو وائرس کے پھلاو کو روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اس مرض کی علامتوں میں بخار، خون آنا اور مرکزی اعصابی نظام کے تباہ ہونا بھی شامل ہے زکام جیسی علامت ظاہر ہوتو عوام کو فوری احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ڈبلیو ایچ او کے ڈائرکٹر ڈاکٹر مارگریٹ جان نے اس مرض سے متاثرہ حلقوں کیلئے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے کیونکہ گذشتہ چار دہوں کے دوران اسے سب سے زیادہ سنگین اور خطرناک وائرس قرار دیا گیا ہے ۔ افریقی ملکوں میں وبائی امراض کا پھوٹ پڑنا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن مرض ایبولا کا پھیلنا ساری دنیا کیلئے تشویشناک ہے صاف صفائی اور حفظان صحت کیلئے درکار تمام سہولتوں کا انتظام کرنا حکومتوں اور صحت کے اداروں کی ذمہ داری ہے اس سے زیادہ بڑی ذمہ داری عوام الناس کی یہ ہے کہ وہ احتیاط کریں۔