اب تاریخی پرانا پل پر بھی دیوی دیوتاؤں کی تصاویر نصب

حیدرآباد ۔ 8 ۔ اکٹوبر : ( نمائندہ خصوصی ) : حیدرآباد کو پورے ملک میں ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی ، بھائی چارگی قومی یکجہتی کے لیے جانا جاتا رہا ہے اور آج بھی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ لیکن دیگر ریاستوں سے آکر آباد ہوئے چند شرپسند عناصر کی آنکھوں میں یہاں آپسی محبت و بھائی چارگی شائد کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقفہ وقفہ سے نت نئی حرکتیں کی جارہی ہیں تاکہ مختلف فرقوں کے درمیان تناؤ اور رنجش پیدا ہوسکے اور یہاں کی یکجہتی اتحاد و اتفاق مٹ کر رہ جائے ۔ ہندوستان کے قدیم پلوں میں حیدرآباد کا ’ پرانا پل ‘ خاص مقام رکھتا ہے جو 450 سالہ قدیم ہے اور قطب شاہی فن تعمیر کا ایک یادگار نمونہ ہے ۔ دراصل یہ پل شہر حیدرآباد کو گولکنڈہ سے جوڑنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔

مگر جیسے جیسے موسیٰ ندی سوکھتی چلی گئی ویسے ویسے یہاں مختلف مقامات پر ایک ہی فرقہ مگر علحدہ علحدہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ۔ ان برادریوں کو غیر مقامی شرپسند عناصر نے مذہب کے نام پر گمراہ کر رکھا ہے چنانچہ حکومت نے جیسے ہی اعلان کیا کہ ندی کا علاقہ خوب صورت بنایا جائے گا ۔ ویسے ہی چند ہی دنوں میں یہاں کثیر تعداد میں چھوٹے بڑے منادر قائم ہوگئے ۔ حد تو یہ ہے کہ پرانا پل جو گولکنڈہ ( محمد نگر ) اور حیدرآباد دونوں شہر کو جوڑنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اب اس پر دونوں طرف سبزی اور پھلوں کا بازار لگتا ہے ۔ اب اس پل پر بھی مبینہ طور پر مندر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔ اس قدیم پل پر بھگوانوں کی تصویریں رکھ کر زعفرانی نشان لگادیا گیا ہے ۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایسے کام انجام دینے کی شروعات اسی طرح کی جاتی رہی ہے ۔ پہلے تصویریں رکھی جاتی ہیں ۔ مذکورہ مقام کو رنگ دیا جاتا ہے اور پھر بعد میں دھیرے دھیرے وہ ایک بڑے مندر کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ حالانکہ یہ شرپسندانہ حرکت پہلی بار نہیں کی جارہی ہے بلکہ اس سے پہلے بھی پرانا پل پر اسی طرح کی کوشش کی گئی تھیں تو روزنامہ سیاست نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس کا اثر یہ ہوا تھا کہ پولیس نے فوری حرکت میں آتے ہوئے اسے مذہبی مقام بننے سے بچالیا تھا اور تصویریں ہٹادی تھیں ۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس پل کے دروازے کو بھی بند کر کے پہلے ہی مندر بنادیا گیا ہے ۔

حالانکہ یہ ایک قطب شاہی ورثہ ہے جس کے دروازے سے آر ٹی سی بسیں اور دیگر گاڑیاں بھی گذرتی تھیں مگر اسے بند کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر مندر بنادیا گیا ۔ حتی کہ اس دروازے کے اوپر موجود فارسی زبان پر مشتمل کتبے کو بھی سفیدی کرتے کرتے پوری طرح سے مٹادیا گیا ہے تاکہ اس کی تاریخی حیثیت کا پتہ نہ چل سکے ۔ ان شرپسندوں نے اس کتبہ کے اوپر اتنی سفیدی پوتی کے سفیدی کے تہوں کے اندر سارے حروف دب گئے اب وہاں بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ یہاں کبھی کوئی تاریخی کتبہ رہا ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایک ہیرٹیج پل ہے جس کی حفاظت کی حکومت ذمہ دار ہے ۔ لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ ان شرپسندوں کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے پرانا پل کی ہیرٹیج حیثیت بحال کرے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پرانا پل سے ’ بازار ‘ کو برخاست کرے اور یہاں مندر بنانے کی کوششوں کو ناکام بنائے ۔ ضرورت اس بات کی ہے پولیس اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کے تال میل سے اس ہیرٹیج پل کے ’ جوں کا توں ‘ موقف بحال کرے تاکہ شہر کا امن و سکون بھی بحال رہ سکے ۔۔