آندھرا پردیش میں سرمایہ کاری کا رجحان ، تلنگانہ میں صورتحال تشویشناک

چندرا بابو کی پرکشش ترغیبات ، کے چندر شیکھر راؤ سہولتوں کے باوجود ترغیبات اوجھل
حیدرآباد ۔ 7 ۔ مئی : ( سیاست نیوز ) : ریاستوں کا استحکام ان کی معیشت اور ریاستوں میں ہونے والی سرمایہ کاری پر منحصر ہوتا ہے اور ریاست میں ہونے والی سرمایہ کاری ریاست کی ترقی کے آثار نمایاں کرتی ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری اور گھریلو صنعتوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری ریاست میں حکومت کے طرز کارکردگی کے ساتھ محصولات و دیگر سہولتوں کو دیکھتے ہوئے کی جاتی ہے ۔ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم اور ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا جائزہ دونوں ریاستوں میں ہونے والی سرمایہ کاری سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دونوں ریاستوں میں موجود دو علحدہ حکومتیں کس ڈھنگ سے چلائی جارہی ہیں یہ بات بھی واضح ہوتی جارہی ہے اور عوام اس کا کھلے ذہن سے جائزہ بھی لینے لگے ہیں ۔ حکومت آندھرا پردیش کی کارکردگی کے متعلق عوام و سیاسی حلقوں میں ناراضگیاں ظاہر کی جارہی ہیں اور کسانوں سے زمین کے حصول کا معاملہ ہو یا سیشا چلم انکاونٹر کے معاملات ہوں ، حکومت کی جانب سے خزانہ خالی ہونے کا اعلان ہو یا پھر ریاست آندھرا پردیش کو خصوصی موقف فراہم کرنے کے لیے جاری احتجاج ان سب کے باوجود چیف منسٹر آندھرا پردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو نے ریاست آندھرا پردیش میں سال 2015 کے پہلے سہ ماہی میں 2554 کروڑ کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ماہ مارچ 2015 کے اختتام تک 21 پراجکٹس و منصوبہ جات میں 2554 کروڑ کی سرمایہ کاری ہوئی ہے ۔ سرمایہ کار ممکن ہے آندھرا پردیش میں نئے صدر مقام کی تعمیر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس ریاست کا رخ کررہے ہیں ۔ لیکن آندھرا میں سرمایہ کاری کے متعلق سرمایہ کار متفکر بھی ہیں چونکہ ریاست کی تقسیم کے فوری بعد ہدہد طوفان کا سامنا ریاست آندھرا پردیش نے کیا تھا لیکن اس کے باوجود آندھرا پردیش میں اندرون 3 ماہ 2554 کروڑ کی سرمایہ کاری سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں چیف منسٹر آندھرا پردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو کے سرمایہ کاروں و صنعت کاروں سے دیرینہ روابط کا آندھرا پردیش کو فائدہ حاصل ہورہا ہے ۔ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جس سنہری تلنگانہ کا خواب حکومت نے دکھایا تھا وہ سنہرا تلنگانہ تو نظر نہیں آرہا ہے لیکن تلنگانہ میں سب کچھ ہونے اور انفراسٹرکچر کی موجودگی کے باوجود سرمایہ کاری میں کمی تشویشناک بات ہے ۔ سال 2015 کے پہلے سہ ماہ کے دوران تلنگانہ میں صرف 1277 کروڑ کی سرمایہ کاری کی گئی اور 31 منصوبہ جات میں کی گئی اس سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتاہے کہ ریاست تلنگانہ کافی کوشش کے باوجود سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے حالانکہ شہر حیدرآباد میں بہترین انفراسٹرکچر معیاری برقی سربراہی کے علاوہ اطراف کے صنعتی علاقوں کی بہتر حالت بھی سرمایہ کاروں کو راغب نہیں کرپارہی ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں تقریبا وہی مسائل ہیں جو آندھرا کو درپیش ہیں جن میں کسانوں کے مسائل کے علاوہ آر ٹی سی ہڑتال شامل ہے لیکن آندھرا پردیش میں سرکاری ملازمین حکومت کی حمایت میں ہے جب کہ ریاست تلنگانہ میں سرکاری ملازمین حکومت سے ٹکراؤ کی صورتحال میں پہنچ چکے ہیں ۔ تلنگانہ میں حکومت کے خلاف سرگرم طاقتوں میں اپوزیشن جماعتیں نہیں ہیں بلکہ ریاست کے طلبہ ، ملازمین ، کنٹراکٹ ملازمین ، اساتذہ شامل ہیں جو کہ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات سے ناراض نظر آرہے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ میں امتحانات کے فوری بعد پرچوں کی تنقیح کرنے والے عملہ نے ہڑتال کی تھی اور اب برقی کنٹراکٹ ملازمین ہڑتال پر ہیں ساتھ ہی آر ٹی سی ملازمین ہڑتال پر ہیں اور طلبہ میں حکومت کے خلاف زبردست برہمی پائی جاتی ہے ۔ یہی صورتحال ریاست تلنگانہ کے اقلیتوں کی ہے جو حکومت کی جانب سے 5 مسلم نوجوانوں کی فرضی انکاونٹر میں ہلاکت کے باوجود اختیار کردہ موقف سے شدید ناراض ہیں ۔ دونوں ریاستوں کی ترقی کی راہوں کا تجزیہ کرنے پر یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش انتظامی صلاحیتوں کے بہترین استعمال کے ذریعہ سرمایہ کاروں کے لیے منفی رجحان کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کرتی جارہی ہے جب کہ ریاست تلنگانہ میں جن ملازمین و طلبہ نے تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کا ساتھ دیتے ہوئے ریاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ لوگ ہی حکومت اور چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے طرز کارکردگی پر مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی اپنی شخصیت و حکمت عملی و چالاکیاں مسلمہ ہیں لیکن ریاست کی تشکیل کے بعد پیدا حالات سے نمٹنے کی کوششیں فوری طور پر کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔۔