صدر تلنگانہ پی سی سی اقلیت ڈپارٹمنٹ جناب محمد سراج الدین کی وفد کے ساتھ گورنر سے نمائندگی
حیدرآباد ۔ 7 ۔ مئی : ( سیاست نیوز ) : صدر تلنگانہ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ مسٹر محمد سراج الدین کی قیادت میں کانگریس قائدین کا ایک وفد آج راج بھون پہونچکر گورنر نرسمہن سے ملاقات کی ۔ آلیر انکاونٹر کو سرکاری قتل قرار دیتے ہوئے اس کی سی بی آئی یا عدالتی تحقیقات کرانے کامطالبہ کیا ۔ اس وفد میں تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹریز مسٹر سید یوسف ہاشمی ، مسٹر محمد اسمعیل حسین تلنگانہ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ کے نائب صدر نشین مسٹر میر ہادی علی صدر ضلع ورنگل کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ مسٹر محمد جمال شریف کے بشمول وفد میں 10 قائدین شامل تھے ۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مسٹر محمد سراج الدین نے کہا کہ سوریہ پیٹ انکاونٹر کا انتقام لینے کے لیے ٹی آر ایس حکومت اور پولیس نے گہری سازش تیار کرتے ہوئے چنچل گوڑہ جیل میں محروس ذاکر کو ایک دن قبل ہی ورنگل جیل منتقل کیا اور دوسرے دن وقار اور ان کے 4 ساتھیوں کو حیدرآباد عدالت منتقل کرنے کے دوران آلیر میں فرضی انکاونٹر کردیا ۔ جو سرکاری قتل ہے ۔ عدلیہ کی تحویل میں موجود 5 مسلم زیر دریافت قیدیوں کا پولیس نے سفاکانہ قتل کیا ہے ۔ جس کی تلنگانہ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ سخت مذمت کرتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی سے قربت حاصل کرنے کے لیے چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے آلیر انکاونٹر کرایا ہے تاکہ فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں میں ہیرو بن کر چیف منسٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے مگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اعتماد سے محروم ہوچکے ہیں اس مسئلہ پر گورنر مسٹر نرسمہن کو تحریری طور پر ایک یادداشت پیش کی گئی ہے ۔ تلنگانہ میں عوام کی محافظ رہنے والی پولیس عوام کو قتل کرتے ہوئے قانون اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے ۔ مہدی پٹنم کے ملٹری علاقے میں مسلم لڑکے مصطفی کو نذر آتش کرتے ہوئے قتل کردیا ۔ اس سے قبل کشن باغ میں پولیس نے فائرنگ کرتے ہوئے 3 مسلمانوں کو ہلاک کردیا پھر آلیر انکاونٹر کا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ صدر تلنگانہ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ مسٹر محمد سراج الدین نے حکومت اور پولیس سے استفسار کیا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈالنے کے بعد 5 نوجوان پولیس پر کیسا حملہ کرسکتے ہیں ۔ پولیس من گھڑت کہانی بناتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ فرضی انکاونٹر سے توجہ ہٹانے کے لیے چیف منسٹر کے سی آر نے ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے جو تحقیقات کا آغاز کرنے سے قبل متنازعہ بن گئی ہے ۔ ایس آئی ٹی کے سربراہ طویل رخصت پر چلے گئے ۔ ٹی آر ایس کا 11 ماہی اقتدار اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے مایوس کن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور یادداشت بھی گورنر کو دی گئی ہے جس میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے وعدے پر ٹی آر ایس حکومت عمل نہ کرنے کی شکایت کی گئی ہے ۔ اقلیتی بجٹ میں ہر سال اضافہ کیا جارہا ہے ۔ مگر منظور کردہ مکمل بجٹ جاری نہیں کیا جارہا ہے ۔ انجینئرنگ و میڈیکل کورس کے علاوہ دیگر پروفیشنل کورسیس میں ایس سی ، ایس ٹی طلبہ کی حکومت کی جانب سے مکمل فیس ادا کی جارہی ہے جب کہ اقلیتی طلبہ کے لیے صرف 35 ہزار روپئے جاری کیا جارہا ہے ۔ اس معاملے میں گورنر مداخلت کریں اور اقلیتی بجٹ کو مکمل استعمال کرتے ہوئے طلبہ کی مکمل فیس ادا کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا ۔ ایس سی ۔ ایس ٹی طبقات کی طرز پر اقلیتوں کو بھی سب پلان دیا جائے ۔ گورنر نرسمہن نے ان کے دو یادداشتوں پر ہمدردانہ غور کرنے کا تیقن دیا ہے ۔۔