زندگی اُوڑھ کے لیٹی ہے تبسم کی ردا
دست پرسش ذرا آہستہ بدن زخمی ہے
آر ایس ایس کی حکمت عملی
آر ایس ایس نے اپنی تنظیمی ڈھانچوں میں نئی روح پھونکنے اور ہندووں کے اندر اتحاد کو وقت کا تقاضہ قرار دینے کیلئے اپنے بیانات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں وہ سرکاری فائیلوں کا حصہ بن کر عوامی خدمات کے کاموں کو فراموش کردیں گے۔ اسلام فوبیا کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں ہندوستان کے اندر ایک ہندو قوم پرست گروپ کا یکجا ہونا مشکل تھا آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کانپور میں منعقدہ اپنی ریالی کے دوران مسلمانوں کو متحد کرنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن ہندو طبقہ اس وقت ایک رواں ندی کا میٹھا پانی کے بجائے کنارے کھڑے ہوکر اس کی نمی کو ہی محسوس کررہا ہے۔ دراصل بی جے پی کی حکومت میں آر ایس ایس کو اپنی تنظیمی مضبوطی کا خیال آیا ہے تو یہ عوام کے ذہنوں کی تبدیلی کا بھی نتیجہ ہے ۔ آر ایس ایس کو اپنے ابتدائی وار میں بقاء کیلئے شدید جدوجہد کرنی پڑی تھی ۔ ماضی کے منفی حالات کو یاد کر کے آر ایس ایس قائدین اپنے بانی سربراہ کے بھی ہیڈ گیور کی خدمات کی ستائش کی ہے ۔ ہندو طبقہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے کاموں کو ہندوستان کی ترقی کیلئے وقف کردیا جائے تو ملک سے غربت کے خاتمہ میں مدد ملتی ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے سنگھ پریوار سے نظریات کو اختیار کرنے اور اسے عام کرنے کا عہد کیا ہے ۔ بی جے پی حکومت میں آر ایس ایس کیلئے بھی موفق بناتی جارہی ہے ۔ کوئی بھی طاقت آر ایس ایس اور اس کی بغل بچہ تنظیموں کو اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ رام مندر کے نام پر ہونے والی سیاست پر ناراضگی ظاہر کرتے تھے تاہم ملک یا ملک کے باہر آر ایس ایس نظریہ کو فروغ دینے میں اس مرتبہ سنگھ پریوار کی نمائندہ جماعت ہوسٹن میں سرگرم ہے۔ اب کی بار مودی سرکار کا نعرہ لگاتے ہوئے عام انتخابات میں بی جے پی حکومت کو اقتدار تک پہونچانے والی آر ایس ایس کو دہلی انتخابات نے شدید مایوس کردیا ہے ۔و زیر اعظم مودی کی دارالحکومت دہلی میں موجودگی کے باوجود آر ایس ایس کیڈرس کو دہلی انتخابات میں کامیابی کا موقع نہیں ملا ۔ اس پر خود احتجاج کرتے ہوئے حکومت نے ان علاقوں کی نشاندہی شروع کی ہے جہاں آر ایس ایس کی مضبوط شاکھائیں کام کررہے ہیں۔ آر ایس ایس کے پُر عزم اور مضبوط لیڈر بھاگوت نے ایسے مختصر خطاب میں آر ایس ایس کیڈرس کو کھلی چھوٹ دینے کا اشارہ دیا تھا۔ تا کہ دہلی پر بھی اس کی پارٹی کا رج ہوجائے لیکن دہلی کے عوام نے اس پارٹی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صرف 3 نشستوں پر کامیابی دلائی ہے اس کامیابی کے پیچھے یہ شبہات بھی پیدا ہورہے لیں کہ عوام کو مایوس کرکے آر ایس ایس پھر ایک غلطی کرے گی ۔ موہن بھاگوت آج جس ہندو سماج کو متحدہ کرنے کی بات کررہے ہیں اس ہندو سماج نے دہلی میں آر ایس ایس کو مسترد کردیا ہے ۔ دہلی میں ناکامی کے بعد آر ایس ایس کو بہار اور یو پی کے انتخابات کیلئے موثر حکمت عملی بنانا ہے ۔ اس خصوص میں کانپور اجلاس کے نتائج توقع کے مطابق برآمد نہیں ہوئے ۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات پر توجہ مرکوز کرنے والی اس تنظیم کو ہندوستانی عوام خاص کر غریبوں کی بہبود کی فکر نہیں ہے۔ اپنی دنیا کو مضبوط بنانے کی فکر کے ساتھ آر ایس ایس کے کیڈرس کو اپنی شاکھاوں میں مضبوطی لانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ یہ کوشش تاریکی میں تیر چلانے کے مترادف ہے کیوں کہ ملک کے عوام نے دہلی کے عوام کے مطابق ہی آر آر ایس کو مسترد کردیا ہے تو بہار اور یو پی کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شدید ہنریمت اٹھانی پڑے گی۔ سب سے پہلے عوام کو آر ایس ایس کی پالیسیوں پر طائرانہ نظر ڈالنی ہوگی گذشتہ 8 ماہ کے دوران ہونے والی غلطیوں کا نوٹ لیا جائے تو اس مجموعی طور پر کئی خرابیاں نکل جائیں گی۔ تاریخ میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس ہندو طبقہ کی مسیحائی کا جذبہ لے کر اتحاد کا نعرہ گا رہی ہے وہ سراسر ایک دھوکہ اور فریب ہے ۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ آر ایس ایس اپنے جلسوں اور ریالیوں کے ذریعہ کامیابی حاصل کرے گی تو اس کا ناکام ثبوت دہلی انتخابات میں ملتا ہے جہاں عوام نے آر ایس ایس کے کسی بھی لیڈر کو خاطر میں نہیں لایا ۔ اب آر ایس ایس کے قائدین کو مبالغہ ریزی سے کام لینے کی عادت پڑگئی ہے ۔ اس عادت کو ترک کر کے نئی عوام مسیحائی عمارت اپنانے کی ضرورت ہے لیکن ایک سیکولر ملک میں سابق حکمران پارٹی کے رول کو بھی برداشت نہیں کیا جارہا ہے۔