…گزشتہ سے پیوستہ …
موسیٰ نے حصہ دار کا نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ابو عبداﷲ ہے ۔ موسیٰ ، ان کے پاس پہنچ گیا، ماجریٰ سنایا اور آدھے سیب کی معافی چاہی۔ ابوعبداﷲ نے موسیٰ کو سر سے پاؤں تک عجیب نظروں سے دیکھا اور دیکھتا رہا ۔ جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہو ، موسیٰ کا دل ڈوبنے لگا ، یا اﷲ اگر ابوعبداﷲ نے معاف نہ کیا تو کیا ہوگا ؟ ابوعبداﷲ کی حیرانی اور موسیٰ کی پریشانی کا عجیب عالم تھا۔ خاموشی کے یہ چند لمحے قیامت لگ رہے تھے ۔ بالآخر ابوعبداﷲ نے زبان کھولی ، کہا : میں اپنا حصہ صرف ایک شرط پر معاف کرسکتا ہوں ۔ موسیٰ نے بے تابی سے کہا : مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے ۔ ابوعبداﷲ نے کہا : پہلے سن تو لو شرط کیا ہے ۔ فرمائیے ، موسیٰ کا جواب تھا ۔ ابوعبداﷲ نے کہا میری ایک نابینا بیٹی ہے جو بہری اور گونگی بھی ہے اور لنگڑی لولی بھی ۔ اگر تم اس سے نکاح کرلو تو میں آدھا سیب معاف کردوں گا۔ یااﷲ ! آدھے سیب کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔ آدھا سیب معاف کراکے وہ اپنی آخرت بچانا چاہتا تھا ، لیکن اس کی قیمت میں اسے اپنی زندگی نذر کرنی پڑ رہی تھی ۔ زندگی کی ہر خوشی کو خیرباد کہنا ہوگا ۔ ساری زندگی اس کو ایک معذور اور اپاہج کی خدمت کرنی پڑے گی ۔ صورتِ حال دنیا و آخرت کے مقابلے کی پیش آگئی کہ ترجیح کس کو دی جائے ۔ موسیٰ کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کا وہ ورق آگیا جس پر آیت کریمہ لکھی تھی … ترجمہ :
’’ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت اچھی اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے ‘‘۔
موسیٰ نے دنیا پر لات ماردی اور آخرت بچالی ۔ اس نے ابوعبداﷲ سے کہا : ’’مجھے منظور ہے‘‘ ۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوئی ۔ حاضرین محفل نے دلہا کو مبارکباد دیں ، مبارک سلامت کے شور میں موسیٰ کے دل پر جو بیت رہی ہوگی ، اس کو وہی جانتا تھا یا پھر اس کاخدا ۔ دلہن بابل کے گھر سے رخصت ہوکر موسیٰ کے چھوٹے سے گھر میں آگئی جس کا انتظام اس نے اس شہر میں کرلیا تھا۔
حجلۂ عروسی میں دلہن سمٹی سمٹائی چارپائی پر بیٹھی تھی ۔ اندر قدم رکھتے ہی موسیٰ کی آواز السلام علیکم نے گہرے سکوت کو توڑا، دوسرے ہی لمحے وعلیکم السلام کی آواز نے موسیٰ پر بجلی گرادی ، وہ ٹھٹک کر رہ گیا ۔ یااﷲ خیر ۔ یہ کیا ؟ میں نے تو ایک بہری گونگی لڑکی سے نکاح کیا ہے ، مگر یہ تو سن بھی رہی ہے اور بول بھی رہے ۔ کون ہو تم ؟ موسیٰ نے کہا ۔ دلہن نے گھونگٹ اُٹھاکر کہا : فاطمہ ، آپ کی بیوی ۔ موسیٰ ششدر رہ گیا۔ یااﷲ ! یہ تو دیکھ بھی رہی ہے! میں نے تو ایک اندھی لڑکی سے نکاح کیا ہے ۔ موسیٰ باہر جانے لگا ۔ ٹھہرئیے ۔ دلہن نے کہا ، وہ چار پائی سے نیچے اُتر آئی ۔ یااﷲ! یہ تو لنگڑی لولی بھی نہیں ہے ۔ یقینا یہ کوئی اور لڑکی ہے ۔ وہ سراسیمہ باہر نکل آیا ، وہ سیدھے ابوعبداﷲ کے پاس پہنچ گیا ، بولا : آپ نے تو کہا تھا آپ کی بیٹی بہری گونگی ، لنگڑی لولی اور اندھی ہے لیکن وہاں تو کوئی اور لڑکی ہے ۔ ابوعبداﷲ کے ہونٹوں پر تبسم کھیل گیا ۔ اس نے کہا : ’’آؤ بیٹھو ! میں تمہیں بتاتا ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ وہ میری ہی بیٹی اور تمہاری بیوی ہے ۔ پریشان مت ہو ، جب تم میرے پاس آدھا سیب معاف کرانے آئے تھے تو میں تمہاری دینداری اور تقویٰ و پرہیزگاری سے بڑا متاثر ہوا تھا اور چند ہی لمحوں میں میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میری دیندار ، متقی و پرہیزگار بیٹی کے لئے تم ہی مناسب رہو گے ۔ اس لئے میں نے یہ شرط رکھی تھی کہ تم میری بیٹی کو اپنے نکاح میں قبول کرلو ۔ میں نے اس کو بہری گونگی اس معنی میں کہا تھا کہ اس کے کان کسی ناجائز اواز کو سننے سے اور زبان کسی ناجائز بات کہنے سے ناآشنا ہیں۔ میں نے اس کو لنگڑی لولی اس معنی میں کہا تھا کہ اس کے پاؤں کوئی ناجائز قدم اُٹھانے سے اور ہاتھ کسی ناجائز چیز کو چھونے سے ناآشنا ہیںاور اندھی میں نے اس معنی میں کہا تھا کہ اس کی آنکھ کسی ناجائز چیزیا کسی نامحرم کو دیکھنے سے بیگانہ ہے ۔ میں جب اپنی بیٹی کی یہ کیفیت دیکھتا تو سوچتا تھا کہ ایسا ہم پلہ دیندار لڑکا کہاں سے ملے گا اور اسی فکر نے مجھے پریشان کر رکھا تھا ۔ اﷲ نے جب تم کو میرے پاس بھیج دیا تو تمہاری دینداری کو دیکھ کر میں نے اپنی بیٹی کے لئے تم کو پسند کرلیا تھا ۔ گھبراؤ نہیں ، پریشان مت ہو ، فاطمہ تمہاری ہی بیوی ہے ۔
دیکھا آپ نے ؟ فاطمہ نے اﷲ کی امانت ، اس کی صفات ذاتیہ کو کیسے استعمال کیا اور کیسے واپس کیا ۔ آپ نے موسیٰ کی دینداری بھی دیکھی اور فاطمہ کی دیانت داری بھی ، دونوں کس طرح لباس تقویٰ میں ملبوس ہیں۔ اب یہ بھی دیکھئے کہ اﷲ نے اس کو اس تقویٰ کا صلہ کیا دیا۔ اولیاء اﷲ کا سردار ، مادر زاد ولی کامل فرزند جس کو دنیا پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے جانتی ہے ، قادری سلسلہ کے بانی ، رسول اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے ، صاحب کرامات بزرگ اور ان کے والد محترم یہ موسیٰ کون ہیں ؟
حضرت امام حسنؓ کی صلبی اولاد حضرت ابوصالح موسیٰ جنگی دوست جو شوق جہاد کی وجہ سے جنگی دوست کے نام سے مشہور ہوگئے تھے اور یہ والدۂ محترمہ کون ہیں ؟
حضرت امام حسینؓ کی صلبی اولاد حضرت اُم الخیر فاطمہ اور نانا ہیں حضرت ابوعبداﷲ صومعی ، حضرت امام حسینؓ کے نسلی فرزند۔ پیرانِ پیر کی والدۂ محترمہ کی یہ بے صفاتی موت قبل از موت تھی ۔ جو سخت مجاہدوں سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب حاصل ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی ایسے ہی عظیم الشان ہوتے ہیں یہ ہے موتوا قبل ان تموتوا کی صورتِ محسوس ۔ حضرت شیخین احمد شطاری علیہ الرحمہ نے خوب کہا ہے :
زندگی پر مرنے والے ! زندگی میں مرکے دیکھ
سب تماشے کرکے دیکھا! یہ تماشا کرکے دیکھ